وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَىٰ بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِهِ وَأَظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَن بَعْضٍ ۖ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِهِ قَالَتْ مَنْ أَنبَأَكَ هَٰذَا ۖ قَالَ نَبَّأَنِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ
جب نبی نے اپنی کسی بیوی سے ایک راز کی بات کہی۔ اس بیوی نے وہ بات (آگے) بتا دی اور یہ معاملہ اللہ تعالیٰ نے نبی پر ظاہر [٤] کردیا اب نبی نے (اس بیوی کو) کچھ بات تو جتلا دی [٥] اور کچھ نہ جتلائی۔ پھر جب نبی نے اسے (افشائے راز کی) یہ بات بتائی تو وہ پوچھنے لگی کہ :''آپ کو اس کی کس نے خبر دی؟'' تو نبی نے کہا : مجھے اس نے خبر دی جو ہر بات کو جانتا اور اس سے پوری طرح باخبر ہے
حل لغات : عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَنْ بَعْضٍ۔ یعنی انتہائی عالم غضب میں بھی حضور (ﷺ) نے امت کے لئے یہ مبارک اسوہ چھوڑا ہے کہ جس شخص سے ناراضی ہو اور یہ جتانا مقصود ہو کہ ہم ناراض ہیں اس کے لئے صرف یہ کافی ہے کہ نفس واقعہ کی طرف اشارہ کردیا جائے ۔ کیونکہ زیادہ تصریح سے بعض دفعہ ملال بڑھتا ہے اور ندامت کا احساس نہیں ہوتا ہے غرض یہ ہوتی ہے کہ سننے والا اپنے کئے پرپشیمان ہو۔ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا ۔ تمہارے دلوں میں کجی پیدا ہوگئی ہے۔