سورة الطلاق - آیت 1

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ ۖ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ۚ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ ۚ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَٰلِكَ أَمْرًا

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

اے نبی! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت [١] کے لیے طلاق دیا کرو اور عدت کے زمانے کا ٹھیک ٹھیک حساب رکھو اور اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا پروردگار ہے۔ (زمانہ عدت میں) انہیں ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ ہی وہ خود نکلیں [٢] اِلا یہ کہ وہ کسی صریح برائی کی مرتکب ہوں [٣]۔ یہ اللہ کی حدیں [٤] ہیں۔ اور جو شخص حدود الٰہی سے تجاوز کرے تو اس نے اپنے اوپر خود ظلم [٥] کیا۔ (اے مخاطب) تو نہیں جانتا شاید اللہ اس کے بعد (موافقت کی) کوئی نئی صورت پیدا [٦] کردے۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

اسلامی نظام ازواج (ف 2) اسلام پہلا اور آخری مذہب ہے جس نے معاشرتی گتھیوں کو بوجہ احسن سلجھایا ہے اور نظام ازدواجی کو کامل ترین اور معقول ترین صورت میں پیش کیا ہے ۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے نکاح میں اگر تائید مقصود نہ ہو اور غرض عارضی لذت اندوزی ہو تو وہ زنا ہے اور قانو ناًبالکل جائز نہیں ۔ چنانچہ قرآن حکیم اور شریعت اسلامیہ کی توقعات ایک شادی شدہ انسان سے یہ ہیں کہ وہ حتی الامکان اس رشتہ کو آخر تک نبھائے گا ۔ مگر یہ تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ ہر شخص ہر حالت میں فطرت کی طرف سے مجبور ہے کہ کبھی اس میں اور اس کی بیوی میں اختلاف پیدا نہ ہو ۔جو لوگ مسلمان نہیں ہیں اور جن کے مسلک میں طلاق حرام ہے وہ بھی جہاں تک حالات کا تعلق ہے جدائی اور علیحدگی کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہیں ۔ اور کہتے ہیں کہ باوجود کمال محبت کے بعض وقت دونوں میاں بیوی اخلاقی اور روحانی نقطہ نگاہ سے ضروری سمجھتے ہیں کہ ان کا ایک دوسرے سے جدا ہونا زیادہ انسب اور اولی ہے ۔ لہٰذا اسلام نے طلاق کی اجازت دے کر انسانیت پر ظلم نہیں کیا ہے بلکہ انسانی فطرت کی ترجمانی کرکے اس کو بہت سے مظالم سے بچا لیا ہے ۔ بعض دفعہ تحریم طلاق کے لئے ایک جذباتی دلیل پیش کی جاتی ہے کہ وہ رشتہ جس کو خدانے جوڑا ہے تمہیں کیا استحقاق ہے کہ اس کو توڑ دو مگر یہ نہیں سوچا جاتا کہ اس دلیل میں معقولیت کتنی ہے ۔ اول تو یہ غلط ہے کہ رشتہ فطری رشتہ ہے کیونکہ عملاً ہم دیکھتے ہیں کہ بیوی کے مرجانے کے بعد دوسری شادی کا مرد کو اختیار حاصل ہے اسی طرح مرد کے انتقال کے بعد عورت دوسرے مرد کو حاصل کرسکتی ہے ۔ حالانکہ فطری رشتہ کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا کوئی بدل قرار نہ دیا جاسکے ۔ جس طرح کہ ماں باپ اور بھائی بہنیں کہ آپ بڑی کوشش کریں ماں کی جگہ دوسری ماں اور باپ کی جگہ دوسرا باپ نہیں پاسکتے ۔ اسی طرح بھائی اور بہنوں کا کوئی بدل نہیں ہوسکتا ۔ پھر ان رشتوں میں قدرتی طور پر استحکام اتنا ہے کہ اگر آپ ناراض بھی ہوجائیں جب بھی ماں کے ماں ہونے سے اور باپ کے باپ ہونے سے انکار نہیں کرسکتے آپ مجبور ہیں کہ ہر حالت میں ان رشتوں کو تسلیم کریں بخلاف میاں بیوی کے تعلق کے ۔ یہ ان معنوں میں فطری رشتہ نہیں ہے کیونکہ اس رشتہ کا محرک جذبہ جنس وانس ہے ۔ قانون اور فقہ اس کو باقاعدہ شکل دے دیتا ہے ۔ اور پھر جب یہ معلوم ہو کہ اس جذبہ جنس وانس کی تکمیل میں یہ رشتہ حائل ہے تو قانون وفقہ کو اتنا اختیار ہے کہ اس کو منقطع کردے ۔ ثانیا اس دلیل میں یہ مغالطہ ہے کہ جس کو خدانے جوڑا ہے اسکو گویا ہم توڑ رہے ہیں ۔ حالانکہ خدا کے قانون کے ماتحت اس کا انتظام کیا جاتا ہے اور اسی کی ہدایت کے مطابق اس کو ختم کیا جاتا ہے ۔ بہرحال یہ حقیقت ہے کہ قرآن حکیم نے فلسفہ ازواج کو جس خوبی کے ساتھ بیان فرمایا وہ اسی کا خاصہ ہے ۔ ان آیات کا اختصار کے ساتھ یہ مطلب ہے کہ جب طلاق دو بہتر حالت میں دو ۔ جب کہ ظاہری تنفر کے اسباب موجود نہ ہوں ۔ یعنی طہر اور پاکیزگی کی حالت میں اور عدت کو باقاعدہ گنتے رہو ۔ یہ بھی ضروری ہے کہ عورتیں اس اثنا میں اپنے گھروں سے نہ نکل جائیں ۔ کیونکہ ممکن ہے کہ طلاق کے بعد پھروہ اپنے طرز عمل سے دوبارہ خاوند کو رجوع پر آمادہ کرسکیں ۔ ہاں اگر کھلی بےحیائی کا ارتکاب ہو تو اس وقت مرد کو عورت کے گھر سے نکال دینے کا حق حاصل ہے ۔ پھر جب طلاق رجعی میں عدت ختم ہونے کو ہو تو مرد کو یہ اختیار حاصل ہے یا تو شرافت اور حسن سلوک کے ساتھ اس کو اپنے نکاح میں رہنے دے ۔ یا قاعدہ کے موافق اس کو جدا کردے ۔ وہ عورتیں جو عمر کی زیادتی سے حیض سے مایوس ہوں اور وہ جو صغر سنی کی وجہ سے ابھی اس قابل نہ ہوں وہ تین مہینے تک عدت گزاریں اور اس کے بعددوسرا نکاح کریں ۔ حل لغات : لِعِدَّتِهِنَّ۔ بمعنی طہر میں ۔ بِفَاحِشَةٍ۔ بےحیائی ۔ مراد زنا ۔