مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَمَن يُؤْمِن بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ ۚ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
جو مصیبت بھی آتی ہے وہ اللہ کے اذن سے ہی آتی ہے اور جو شخص [١٨] اللہ پر ایمان لائے تو اللہ اس کے دل کو ہدایت بخشتا [١٩] ہے اور اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔
مرد مسلمان کا شیوہ ف 1: اسلام دلوں میں اس عقیدہ کی نشو ونما چاہتا ہے ۔ کہ مرد مسلمان مصائب اور مشکلات میں دماغی توازن کو نہ کھو بیٹھے ۔ پوری جمعیت کے ساتھ اپنے نصب العین کی تکمیل میں مصروف رہے ۔ اور یہ سمجھے ۔ کہ جس قدر تکلیفیں پہنچ رہی ہیں ۔ وہ سب اللہ کے فیصلہ اور علم کے مطابق ہیں ۔ مقصد یہ ہے کہ ان کی وجہ سے عزائم میں استحکام اور ارادوں میں مضبوطی پیدا ہوجائے ۔ نیز طمانیت قلب کا وہ درجہ حاصل ہوجائے ۔ جہاں دلوں میں تزلزل پیدا نہیں ہوتا ۔ یھد قلبہ سے غالبا ۔ یہی مقام تسکین مزہ ہے *۔ مسئلہ تقدیر کا یہ وہ ہمت آفرین پہلوہے ۔ جس کی وجہ سے مسلمان زندگی کی دشوار گزار منزلوں میں بھی مایوس نہیں ہوتا ۔ اور برابر تگ ودو اور سعی میں مصروف رہتا ہے ۔ ایک پہلو وہ ہے ۔ جس کو ہمارے جین اور ہماری بزدلی نے پیدا کیا ہے ۔ اور جو درحقیقت دور تنزل کا طبعی اقتضا ہے ۔ اور وہ یہ کہ جو کچھ ہوتا ہے ۔ وہ خدا کے علم اور فیصلہ کے مطابق ہوتا ہے ۔ اس لئے سرے سے عزم اور محنت کی ضرورت ہی نہیں ۔ یہ فلسفہ تقدیر وہ ہے ۔ جس کو ہماری غلامانہ ذہنیت کے ایجاد کیا ہے ۔ ورنہ یہ کھلی حقیقت ہے ۔ کہ جب زندگی میں مصائب اور مشکلات کا ہونا ناگریز ہے ۔ تو پھر گھبرانے اور مخبوط الحواس ہوجانے کے معنے ۔ اسلام کہتا ہے ۔ تم بہرحال اپنے فرائض ادا کرو ۔ اور اس سے قطعاً سروکار نہ رکھو کہ قوانین فطرت کا کیا تقاضا ہے *۔ ایک وہ شخص جس نے طے کرلیا ہے ۔ کہ وہ بہرنہج اللہ کی فرمانبرداری کرے گا ۔ اور پیغمبر علیہ الصلوٰۃ السلام کو اپنا راہنما قرار دے گا ۔ اور جب جھکے گا ۔ ایک خدا کے سامنے آپ جانتے ہیں ۔ اس اقرار اور اس عقیدے کے ساتھ یہ شخص کفر وانکار کے سمندر میں کتنی طغیانی پیداکردیتا ہے ؟ اور اپنی مخالف قوتوں کو کتنا متحرک بنادیتا ہے ؟ اس کے صاف اور واضح معنے ہی ہیں کہ وہ ساری طاغوتی قوتوں سے لڑنے کے لئے آمادہ ہے ۔ اس صورت حالات سے ظاہر ہے ۔ کہ سوائے توکل اور صبر کے کوئی چیزگزند اور نقصان سے نہیں بچا سکتی ۔ اسی لئے ارشاد فرمایا ۔ وعلی اللہ فلیتوکل المومنون *۔ حل لغات :۔ یوم التغابن ۔ خسارے کا دن بمعنے روز قیامت *۔