ذَٰلِكَ بِأَنَّهُ كَانَت تَّأْتِيهِمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَقَالُوا أَبَشَرٌ يَهْدُونَنَا فَكَفَرُوا وَتَوَلَّوا ۚ وَّاسْتَغْنَى اللَّهُ ۚ وَاللَّهُ غَنِيٌّ حَمِيدٌ
یہ اس لیے ہوا کہ ان کے پاس ان کے رسول واضح دلائل [١١] لے کر آئے تو وہ کہنے لگے : کیا آدمی ہماری رہنمائی [١٢] کریں گے'' چنانچہ انہوں نے انکار کردیا اور منہ موڑ لیا اور اللہ بھی ان سے بے پروا [١٣] ہوگیا اور اللہ تو ہے ہی بے نیاز اور اپنی ذات میں محمود
یہ عجیب بات ہے ۔ کہ کفار کے نزدیک معیار نبوت تو ہمیشہ ضرورت سے زیادہ بلند رہا ۔ اور معیار الوہیت ہمیشہ پست یعنی انبیاء کا تو انہوں نے اس بناء پر انکار کیا ۔ کہ وہ فوق البشر قوتوں اور استعدادوں کے جھکے نہیں ہیں ۔ وہ کیوں بشری تقاضوں کے سامنے جھکتے ہیں ۔ مگر خدا کے متعلق ان کی عقل نے یہی فیصلہ کیا ہے ۔ کہ وہ کوئی بڑی چیز نہیں ۔ انہوں نے بتوں پر قناعت کرلی ۔ درختوں اور پودوں کو مقدس مان لیا جو دریاؤں اور پہاڑوں کو معبود قرار دے لیا ۔ سانپوں اور اژداھوں کو خدا سمجھا ۔ اور زمین کے ہر بلند اور رفیع حصہ کو خلعت لاہوت سے نوازا ۔ یعنی یہ بات کتنی حیرت انگیز ہے ۔ کہ انسان کو اس عہدہ پر فائز نہیں ہونا چاہیے ۔ بلکہ اس منصف کا استحقاق وہ لوگ رکھتے ہیں ۔ جن میں الوہیت متجسد ہو ۔ تمہیں بھوک محسوس ہوتی ہو ۔ اور نہ پیاس ۔ جو اس عالم کے قوانین فطرت سے کیا قلم آزادہوں ۔ خدائی کے متعلق انکازاوایہ نگاہ یہ ہے ۔ ہر خوفناک چیز اور ہر مرغوب کن شخصیت بلکہ ہر وہ چیز جس میں کچھ عجیب وقدرت ہے ۔ بلاریب خدا ہے ۔ غور فرمائیے ان دونوں باتوں میں کتنا تضاد ہے ۔ بہرحال کہنا یہ ہے ۔ کہ سابقہ کفار نے بھی اللہ کے فرستادوں کا انکار محض اس بنا پر کردیا تھا ۔ کہ وہ بھی الوہیت کا دعویٰ نہیں کرتے تھے ۔ اور کبھی دھوکہ نہیں دیتے تھے ۔ وہ صاف کہتے تھے ہم بشر ہیں ۔ ہم انسان ہیں *۔ ہم میں فضیلت یہ ہے ۔ کہ اللہ نے ہم کو اس خدمت کے لئے منتخب فرمالیا ہے ۔ اور ہم اس کی طرف سے مامور ہیں ۔ کہ تمہاری اصلاح کریں ۔ اور تمہیں منکرات کے ارتکاب سے روک دیں ۔ وہ کہتے ۔ کہ ہم ایک اپنے ایسے انسان کو اپنے سے بہتر نہیں سمجھ سکتے ۔ اور پیغمبر نہیں قرار دے سکتے ۔ نتیجہ یہ ہوا ۔ کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کو ٹھکرانے کی وجہ سے عذاب آیا ۔ اور ان کے کبرونخوت کو ایک دم فنا کرکے رکھ دیا گیا ۔ ان نادانوں نے اتنا نہ سمجھا ۔ کہ وہ شخصیت جو کسوت انسانی میں نہیں ہے ۔ جس کی ضروریات اور تقاضے ہماری فطرت سے کوئی مناسبت نہیں رکھتے ۔ وہ ہماری راہما کیونکر ہوسکتی ہے ۔ ہمیں تو ایسے قائد کی ضرورت ہے ۔ جو فطرتاً ہماری مشکلات کا سامنا کرے ۔ ان کو محسوس کرے اور پھر اپنے حس عمل سے ہمارے لئے احساسات کا کیا علم ہوسکتا ہے ۔ پھر یہ کس طرح ہماری زمام قیادت اپنے ہاتھوں میں لے سکتے ہیں *۔ حل لغات : ۔ لہ الملک ۔ بادشاہت ۔ اسی کی سلطنت ہے * تعلمون ۔ اعلان سے ہے * وسورکم ۔ اور صورتیں بنائیں *