يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا أَنصَارَ اللَّهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّينَ مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّهِ ۖ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ اللَّهِ ۖ فَآمَنَت طَّائِفَةٌ مِّن بَنِي إِسْرَائِيلَ وَكَفَرَت طَّائِفَةٌ ۖ فَأَيَّدْنَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَىٰ عَدُوِّهِمْ فَأَصْبَحُوا ظَاهِرِينَ
اے ایمان والو! اللہ (کے دین) کے مددگار [١٦] بن جاؤ۔ جیسے عیسیٰ ابن مریم نے حواریوں سے کہا تھا کہ : ’’اللہ کی طرف (بلانے میں) کون میرا مددگار ہے؟‘‘ تو حواریوں نے جواب دیا۔ ہم اللہ (کے دین) کے مددگار ہیں۔ پھر بنی اسرائیل کا ایک گروہ تو ایمان لے آیا اور دوسرے گروہ نے انکار کردیا۔ پھر ہم نے ایمان لانے والوں کی ان کے دشمنوں کے مقابلے میں مدد کی کہ تو وہی [١٧] غالب رہے۔
ف 1: اس آیت میں مسلمانوں کو اسلام کی نصرت کے لئے ابھارا اور آمادہ کیا ۔ ارشاد فرمایا ہے ۔ کہ اپنی تمام قوتوں کے ساتھ اللہ کے دین کی اشاعت کے لئے اور اس کے اعزاز وتفوق کے لئے کمر بستہ ہوجاؤ۔ اور اسی گرم جوشی اور استقلال کے ساتھ اسلام کی پکار کا استقبال کرو ۔ جس طرح حضرت مسیح کے حواریوں نے کہا تھا کہ نحن انصار اللہ * حالانکہ مخالفین کی تعداد زیادہ تھی ۔ اور ہر طرح طاقتور تھے ۔ مگر تم نے دیکھا کہ یہ مومنوں کا گروہ بالآخر غالب آیا ۔ اور منکرین عیسائی ہوگئے یا مسیحی اقتدار رکے سامنے ان کی گرنیں جھک گئیں *۔ اس تصریح سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ اناجیل میں حضرت مسیح کی بےقدری اور تذلیل کا جو افسانہ مذکور ہے ۔ وہ محض جھوٹ ہے ۔ اور بعد میں وضع کیا گیا ہے ۔ تاکہ ان کی مظلومیت کو ظاہر کرکے تبلیغ واشاعت کے لئے دلوں میں ہمدردی کے جذبات پیدا کئے جائیں *۔ حل لغات :۔ ظاھرین ۔ غالب یا بااقتدار *۔