يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَىٰ أَن لَّا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ ۙ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اے نبی! جب تمہارے پاس مومن عورتیں ان امور پر بیعت [٢٥] کرنے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں گی، نہ چوری کریں گی، نہ زنا کریں گی، نہ اپنی اولاد کو قتل [٢٦] کریں گی، اپنے ہاتھ اور پاؤں کے آگے [٢٧] کوئی بہتان گھڑ کر نہ لائیں گی اور کسی نیک امر میں آپ کی نافرمانی [٢٨] نہ کریں گی تو آپ ان سے بیعت کرلیجئے [٢٩] اور ان کے لئے اللہ سے معافی مانگئے۔ اللہ تعالیٰ یقیناً بخشنے والا ہے رحم کرنے والا ہے
بیعت سے متعلقہ غلط فہمیاں ف 1: بہت کا استقاق بیع سے ہے ۔ جس کے معنے یہ ہیں ۔ کہ مرید شیخ کے ہاتھوں بک جاتا ہے ۔ اور اس کو پھر اختیار حاصل نہیں رہتا ۔ کہ وہ اس کے احکام کو سن کرتال اور جھجھک کا اظہار کرے ۔ اس کا فرض ہے کہ وہ ہمہ اطاعت وانقیادین ہوئے ۔ اور پندولیل وحجت سبل کے لئے ارشاد کے لئے آمادہ ہوجائے ۔ مگر یہاں چند غلط فہمیاں ہیں ۔ جس کا دور ہونا ضروری ہے ۔ یہ خیال کہ شیخ معصوم ہے ۔ اور بقول حافظ کے ع رنگین کن گرت پیر مغاں گوید غیر مشروط اطاعت کا مستحق ہے ۔ حالانکہ اسلامی نگاہ سے ایسی بیعت ناجائز ہے ۔ لاطعۃ المخلوق فی مصحیۃ الحق حدیث ہے ۔ جس کے معنی یہ ہیں ۔ کہ کوئی شخص اس قابل نہیں ہے ۔ کہ اس بلاشرط اطاعت کی جائے پیغمبر کے بعد ہر آدمی باوجود ولایت اور رہد کے ہر آن لغزش وسہو کا شکار ہوسکتا ہے ۔ اس لئے بیعت کے معنی یہ قرار پائے ۔ کہ وہ اطاعت جو شریعت کے مطابق ہو ۔ اور اس صورت میں پھر اس کی مخالفت محض ہوائے نفس کے تقاضے سے درست نہیں ہے ۔ مرید کا فرض ہے ۔ کہ جب اس کو یقین ہوجائے کہ شیخ کا حکم منشاء الٰہی کے عین مطابق ہے ۔ تو پھر اطاعت میں سرگرمی کے ساتھ مصروف ہوجائے ۔ اور اس کے انجام اور وجوہ واسباب پر غور نہ کرے ۔ دوسری غلط فہمی یہ ہے ۔ کہ بیعت کے لئے ایک پیشہ ور گروہ کو متعین کرلیا گیا ہے ۔ اور سمجھ لیا گیا ہے ۔ کہ علم وعمل سے یہ عاری طبقہ محض اس لئے عقیدت ونیاز مندی کا استحقاق رکھتا ہے ۔ کہ آباؤ اجداد سے ان کا پیشہ مرید کرنا ہے ۔ حالانکہ شیخ کے انتخاب کے لئے یہ قطعاً ضروری نہیں ہے ۔ کیونکہ یہ کوئی پیشہ یا فن نہیں ہے ۔ بلکہ ہر وہ مرد مسلمان جو علم وعمل کے زیور سے آراستہ ہے ۔ اس قابل ہے کہ آپ اس سے محبت رکھیں ۔ اور اس کے سامنے اپنی روحانی کمزوریاں بیان کریں ۔ اور پھر اس سے مداوا چاہیں ۔ تیسرا مغالطہ یہ ہے کہ شیخ کو روحانی خاوند سمجھ لیا جاتا ہے ۔ اور ایک شیخ کا مرید دوسرے صلحاء کے ساتھ اپنے دل میں بغض وعناد رکھتا ہے ۔ اور یہ سمجھتا ہے ۔ کہ اب یہ بیعت کا سلسلہ منقطع نہیں ہوسکتا ۔ اور ایک کے رابطہ عقیدت کو گلے میں ڈال لینے کے معنے یہ ہیں ۔ کہ اب کسی دوسرے کی روحانیت سے استفادہ نہیں کیا جاسکتا چاہے وہ رتبہ میں اس سے بڑا کیوں نہ ہو *۔ یہ اسلامی بیعت نہیں ہے ۔ اسلامی زاویہ نگاہ سے متعدد وشیوخ سے فیوض عمل کا استفادہ ہوسکتا ہے ۔ اور ایک مرید بیک وقت مختلف صلواء سے عقیدت رکھ سکتا ہے ۔ چوتھا مغالطہ یہ ہے کہ بیعت کی غرض وغایت یہ نہیں سمجھی جاتی ۔ کہ تزکیہ قلب ہو ۔ اور اعمال صالحہ سے محبت اور ذوق پیدا ہو ۔ بلکہ بیعت اس لئے کی باقی ہے ۔ تاکہ شیخ سے کشائش رزق کے کچھ وظیفے معلوم ہوجائیں ۔ یا دست غیب پر اختیار حاصل ہوجائے ۔ اور پاحب ومغض کے تعویذ حاصل کرنے میں سہولت رہے ۔ حالانکہ بیعت کے معنی یہ تھے ۔ کہاں ایک صالح آدمی ایک صالح تر آدمی کے سامنے عہد کرتا ہے ۔ کہ وہ اس کی نیک باتوں کی اقتداء کرے گا ۔ اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کرے گا ۔ کہ کیونکر زندگی کو خوش گوار اور کامیاب بنایا جاسکتا ہے ۔ آج بیعت کا نام ہے ۔ جہالت کا جمود وتمسفل کا ۔ اندھی تقلید اور اقتداء کا ۔ اور غیر مشروع طریقوں کو رواج دینے کا ۔ دوران حالیکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو بیعت لی تھی ۔ وہ زندگی کی بیعت تھی ۔ جہاد اور ایثار نفس کی بیعت تھی ۔ اسی طرح ان آیتوں میں جس بعیت کا ذکر ہے ۔ وہ قطعاً ایک اخلاقی معاہدہ ہے ۔ مکارم وفضائل کا اکتساب ہے ۔ اور پاکبازی اور پاک خیالی کا اقرار ہے ۔ اس بیعت میں ان باتوں کا کہیں مذکور نہیں ۔ جن کو ہم اپنی جہالت کی وجہ سے لازمہ بیعت سمجھتے ہیں ۔ اور جن کا ترک ہم کو دائرہ اسلام سے خارج کردیتا ہے *۔ حل لغات :۔ فما قبتم ۔ عقبیٰ سے ہے ۔ یعنی انجام کار تم کو بھی ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے *۔ حل لغات :۔ من اصحاب القبور ۔ میں من بیانیہ ہے ۔ جس طرح کفار قبروں میں اپنے اعمال کی وجہ سے آخرت کے ثواب واجر سے مایوس ہیں ۔ اسی طرح یہ لوگ جن پر اللہ کا غضب ہے ۔ آخرت کو تسلیم نہیں کرتے ۔ اور اس کی طرف سے مایوسی کا اظہار کرتے ہیں *۔ لم تغرفون ۔ قول سے یہاں مراد دعا ہے ۔ مطلق تلقین غیر یا وعظ ونصیحت نہیں جیسا کہ عوام سمجھتے ہیں *۔