يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُم مِّنَ الْحَقِّ يُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِيَّاكُمْ ۙ أَن تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ رَبِّكُمْ إِن كُنتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِي سَبِيلِي وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِي ۚ تُسِرُّونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَأَنَا أَعْلَمُ بِمَا أَخْفَيْتُمْ وَمَا أَعْلَنتُمْ ۚ وَمَن يَفْعَلْهُ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ
اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔ تم ان کی طرف محبت کی طرح ڈالتے ہو۔ حالانکہ جو حق تمہارے پاس [١] آیا ہے وہ اس کا انکار کرچکے ہیں۔ وہ رسول کو اور خود تمہیں بھی اس بنا پر جلاوطن [٢] کرتے ہیں کہ تم اپنے رب اللہ پر ایمان لاتے ہو۔ اب اگر تم (برائے فتح مکہ) میری راہ میں جہاد اور میری رضاجوئی کی خاطر نکلے ہو تو خفیہ [٣] طور پر انہیں دوستی کا نامہ و پیام بھیجتے ہو؟ حالانکہ جو کچھ تم چھپاتے ہو یا ظاہر کرتے ہو میں اسے خوب جانتا [٤] ہوں۔ اور تم سے جو بھی ایسا کام کرے وہ سیدھی راہ [٥] سے بھٹک گیا
سورہ الممتحنہ ف 1: اس سورۃ کی شان نزول یہ ہے ۔ کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ طے کیا ۔ کہ مکہ میں دس ہزار قدسیوں کے ساتھ داخل ہوں ۔ تو حاطب بن ابی بلقعہ جو ایک صحابی تھے انہوں نے ازراہ بشریت ایک مکتوب مکہ والوں کو لکھا ۔ اور مسلمانوں کے عزائم سے ان کو قبل ازوقت آگاہ کردینے کی نیت سے اس کو ایک عورت کے ہاتھ بھجوادیا ان کی غرض محض یہ تھی کہ اس طرح مکے والے میرے ممنون ہوں اور لڑائی کے وقت میرے اہل وعیال سے جو مکہ میں تھے ۔ تعرض نہیں کرینگے ۔ یہ یہ ایک نوع کی کمزوری تھی ۔ حاطب سادگی کی وجہ سے اس کے خطرناک نتائج پر متنبیہ نہیں ہوسکے ۔ ان کا خیال تھا ۔ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے سچے رسول ہیں ۔ اس لئے شکست کی تو کوئی وجہ نہیں ۔ البتہ میری اس حرکت سے اتنا ہوگا ۔ کہ میرے بچے محفوظ رہیں گے ۔ اور ان کو کوئی گزند نہیں پہنچے گا ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وحی کے ذریعے اس بات کا علم ہوگیا ۔ اور یہ سازش ناکام رہی ۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں اور بتایا گیا کے منکرین کے ساتھ اس قسم کے دوستانہ تعلقات کس درجہ مضر اور موزوں ہیں *۔ حل لغات :۔ الجبار ۔ یعنی جبر کرنے والا ضرورتوں اور حاجتوں کو پورا کرنے والا ، خرابی کا درست کردینے والا *۔ متبعین ۔ صاحب خلو ورفعت بڑی عظمت والا * اولیاء ۔ جمع ۔ ولی ۔ دوست *۔ دشمنوں سے تعلقات نہ رکھو اس سورت میں مسلمانوں کو متنبہ کیا ہے ۔ کہ تمہارے دوستانہ تعلقات ایسے لوگوں سے قطعاً استوار نہیں ہوسکتے جو میرے اور تمہارے یکساں دشمن ہیں ۔ جو تمہارے وجود کو اور تمہاری زندگی کو کسی عنوان بھی گوارا نہیں کرتے ۔ یہ محض تمہاری سادگی ہے ۔ کہ تم ان کی طرف محبت کا ہاتھ بڑاتے ہو ۔ اور خلوص اور داد کی دعوت دیتے ہو ۔ ان کی ادا یہ ہے کہ وہ تمہارے مذب کا مضحکہ اڑاتے ہیں اور تمہیں قطعان حق پر نہیں سمجھتے تم نے دیکھ لیا کہ انہوں نے تمہارے پیغمبر کو مکہ سے نکال دیا ۔ محض اس عمل کو پاداش میں کہ تم ان کے بتوں کے سامنے نہیں جھکتے ہو ۔ اور اللہ کو مانتے ہو ۔ جو تمہارا پروردگارہے ۔ یہ کس قدر ناموزوں بات ہے ۔ کہ جن لوگوں کی عداوت اور دشمنی نے تمہیں ہجرت پر مجبور کیا ۔ جن کے خلاف تم جہاد کے لئے تیاری کررہے ہو ۔ انہیں سے ساز باز کیا جائے ۔ کیا تم یہ سمجھتے ہو ۔ کہ ہم ان معاملات کو نہیں مانتے ۔ اور ہماری آنکھوں سے یہ واقعات چھپے رہیں گے ؟ ۔ واضح رہے کہ یہ محض غلط فہمی ہے ۔ ہم کو تمہاری ایک ایک حرکت معلوم ہے ۔ چاہے وہ پوشیدہ ہو یا علانیہ یہ اتنا بڑا جرم ہے ۔ کہ اس کو کھلم کھلا گمراہی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ۔ تم لوگ تو انہیں اپنے اسرار سے مطلع کرتے ہو ۔ محض اس لئے کہ تم کو تقرب حاصل ہو ۔ مگر وہ تمہارے اس درجہ دشمن اور مخالف ہیں ۔ کہ اگر تم ایمان کی نعمت سے یک قلم محروم ہوجاؤ۔ اور پھر کفر کی طرف پلٹ جاؤ۔ اہل وعیال کی محبت میں مکہ والوں کو مدد دینا مسلمانوں کے مفاد کی کس درجہ پامالی ہے ۔ جانتے ہو ۔ قیامت کے دن تمہاری اولاد اور رشتہ دار تمہیں کوئی نفع نہیں پہنچا سکیں گے ۔ اس وقت جس رشتہ کی حاجت ہوگی اور جو محبت کام آئے گی ۔ وہ رشتہ وہ ہوگا ۔ جو مسلمان کا مسلمان کے ساتھ ہے ۔ اور وہ محبت وہ ہوگی ۔ جو مسلمان کی مسلمان کے ساتھ ہے ۔ یہ مادی رشتے اور یہ خون کے لائق ۔ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے نہیں بچا سکیں گے *۔ حل لغات :۔ سواء السبیل ۔ راہ راست * ینفقوکم ۔ ثقف سے ہے ۔ بمعنی قابو پانا * یفصل ۔ جدائی ڈال دے گا ۔ فیصلہ کرے گا *۔