كَمَثَلِ الشَّيْطَانِ إِذْ قَالَ لِلْإِنسَانِ اكْفُرْ فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ إِنِّي بَرِيءٌ مِّنكَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ
ان (منافقوں) کی مثال شیطان جیسی ہے کہ وہ انسان [٢٢] سے کہتا ہے کہ کفر کر۔ پھر جب وہ کفر کر بیٹھتا ہے تو کہتا ہے کہ میں تجھ سے بری الذمہ ہوں میں تو اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔
ف 1: منافقین نے یہودیوں کو بہکا کر ذلیل ورسوا کیا ۔ اور آخر میں جب کہ وہ اپنی بستیاں چھوڑ رہے تھے ۔ اور اپنے مال ومتاع سے جدا کئے جارہے تھے ۔ ان سے کچھ بھی کام نہ آسکے ۔ حالانکہ نصرت واعانت کا پورا پورا معاہدہ تھا ۔ فرمایا ۔ ان لوگوں کی مثال شیطان کی طرح ہے ۔ کہ دنیا میں انسان کو گمراہ کرتا ہے ۔ کفر پر آمادہ کرتا ہے ۔ اور عاقبت کے باب میں طرح طرح کے فریبوں سے کام لیتا ہے ۔ مگر جب وہ مقررہ وقت آپہنچے گا ۔ یہ بالکل الگ جاکھڑا ہوگا ۔ اور کامل بیزاری کا اعلان کرے گا ۔ اس وقت ان فریب خوروگان معصیت کو معلوم ہوگا ۔ کہ ہم دنیا میں محض بیوقوف بنے رہے ۔ اور ہم نے اس زندگی کے متعلق جو کچھ سوچ رکھا تھا ۔ وہ قطعاً غلط ثابت ہورہا ہے *۔ حل لغات :۔ آج کے بعد جو زمانہ آتا ہے ۔ وہ کامل طور پر عذر کے مفہوم میں داخل ہے ۔ موت سے پہلے اور موت کے بعد کا بھی ۔ غرض یہ ہے کہ مسلمان مذہبی نقطہ نگاہ سے مجبور ہے ۔ کو اپنے ہر اس لمحہ کے لئے سوچتا رہے ۔ جو آگے والا ہے ۔ اور یہ غوروفکر صرف افراد تک ہی محدود نہیں ہے ۔ اور نہ اس کا تعلق محض تقویٰ اور پاکیزگی کے قرار دیئے جانے سے ہے ۔ بلکہ اس کی حدود جماعتوں تک وسیع ہے ۔ ہر ارتقاء وتقدم پر غوروفکر حاوی ہے ۔ زندہ قومیں اپنی سیاسیات اور عمرانیات کے متعلق ہر آن سوچتی رہتی ہیں ۔ اس لئے مسلمان کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے اعمال کا جائزہ لیتا رہے اور زندگی کے ہر شعبہ کے متعلق ایک رائے متعین کرے *۔ اے نافرمان انکار کرلیں *۔