مَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ ۚ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
اللہ ان دیہات والوں سے جو (مال) بھی اپنے رسول کو مفت [٧] میں دلا دے وہ مال اللہ، رسول، قرابت والوں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے تاکہ وہ (مال) تمہارے دولت مندوں ہی کے درمیان [٨] گردش نہ کرتا رہے۔ اور جو کچھ تمہیں رسول دے وہ لے لو اور جس سے روکے [٩] اس سے رک جاؤ۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ یقیناً سخت سزا دینے والا ہے
ف 1: یہ آیت سیاق وسباق کے لحاظ سے تواموال غنیمت کی تقسیم کے متعلق ہے ۔ اور اس کا مقصد یہ ہے ۔ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس شخص کو جس قدر ازراہ انصاف وعدل دیتے ہیں ۔ اس کو بلا تکلف اور بغیر اعتراض کے قبول کرلینا چاہیے ۔ اور جس کو محروم رکھتے ہیں ۔ اسے اپنی محرومی پر قانع رہنا چاہیے ۔ اور جس کو محروم رکھتے ہیں ۔ اسے اپنی محرومی پر قانع رہنا چاہیے ۔ اور حرف شکایت لبوں تک نہیں لانا چاہیے ۔ کیونکہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عدل وانصاف پر اعتماد نہ کرنا تقویٰ کے منافی ہے ۔ نور ایمان کا فقدان وضیاع ہے ۔ مگر یہ ضروری نہیں ہے ۔ کہ اس خصوصی منی کی وجہ سے آیت میں تقسیم باقی نہ رہے ۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے ۔ کہ آیت میں اصالتہ عموم اسی ہے ۔ اور خصوص ضمنا خود بخود اس میں آجاتا ہے ۔ آیت کے معنے یہ ہیں ۔ کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شخصیت تمہیں جو احکام ونواہی سناتی ہے ۔ اس کو قبول کرو ۔ اور اس کے سامنے کسی نوع کے کبرنفس کا اظہار نہ کرو ۔ کہ یہ پاکیزگی قلب کو ضائع کردینے کے مترادف ہے ۔ گویا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس منصب پر ہیں ۔ کہ وہ مطاع ہیں ۔ ان کی اطاعت اللہ نے لازم قراردی ہے ۔ وہ جو کچھ سیرت وکردار کا ذخیر چھوڑ جائیں ۔ مسلمانوں کے لئے ضروری ہے ۔ کہ اسے خیروبرکت سمجھ کر قبول کرلیں ۔ ورنہ شدید ترین عذاب کے لئے تیار رہیں ۔ یہ عجیب بات ہے ۔ کہ جن لوگوں نے سنت کی محبت سے انکار کیا ہے ۔ اور اپنے زعم میں اختلافات سے بچنے کے لئے صرف قرآن سے تشک کیا ہے ۔ اور وہ بھی قرآن کے انہیں حصے جس میں اسی کی کفایت وتفصیل کا ذکر ہے ۔ وہ اطاعت رسول کی محرومی کی وجہ سے اس دنیا میں عظیم ترین اور تدید ترین عذاب میں مبتلا ہوگئے ۔ اور وہ عذاب اختلاف وتفرقہ کا عذاب ہے ۔ ان کا ہر سمجھدار آدمی بجائے خود ایک مذہب کا امام اور مجتہدبن گیا اور چاہنے لگا ۔ کہ لوگ اس کے متنبع ہوجائیں ۔ فرہین المطروقام تحت الیراب ۔ کی کتنی عمدہ مثال ہے ۔ یہ لوگ اتنی واضح اور نمایاں حقیقت کو نہیں سمجھتے ۔ کہ قران کو اس کے اولین حامل کی وساطت کے بغیر سمجھنا اتنا ہی مشکل ہے ۔ جس قدر خدا تک بغیر عقل وفہم کے رسائی حاصل کرنا *۔