أَأَشْفَقْتُمْ أَن تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَاتٍ ۚ فَإِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
کیا تم اس بات سے ڈر گئے کہ اپنی سرگوشی سے پہلے صدقے ادا کرو [١٧]۔ پھر جب تم نے ایسا نہیں کیا اور اللہ نے بھی تمہیں (اس سے) معاف کردیا تو اب نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ دیتے رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
پہلے خیرات دو پھر سرگوشی کرو ف 1: باوجود اس کے کہ حضور کائنات میں سب سے بڑے انسان تھے ۔ سادگی رحمت اور عفو کا یہ عالم تھا ۔ کہ آپ تک پہنچنے کے لئے کسی توسل کی حاجت نہ تھی ۔ کوئی صاحب اور دربان نہ تھا ۔ جہاں بیٹھتے ۔ لوگوں کا ایک ہجوم آپ کے ساتھ ہوتا ۔ ہر شخص کو ہر وقت آزادی حاصل تھی ۔ کہ وہ آپ سے مسائل پوچھے ۔ آپ کو مخاطب کرے ۔ آپ کا سارا وقت خلق اللہ کی خدمت کے لئے وقف تھا ۔ اس سے جہاں یہ فائدہ ہوا ۔ کہ فیضان نبوت عام ہوا ۔ اور برکات کا دریا امڈا ۔ تو ہر جگہ سیراب ہوگئی ۔ وہاں اہل غرض اور باب تعلق نے یہ چاہا ۔ کہ آپ کی سادگی سے ناجائز استفادہ کیا جائے ۔ اور آپ کو اس طرح گفتگو میں سرگوشیوں میں اور مشوروں میں مشغول رکھا جائے ۔ کہ آپ غرباء اور مساکین کی طرف توجہ نہ دے سکیں ۔ چنانچہ یہ لوگ آئے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے لئے کچھ اس طرح مخصوص کرلیتے ۔ کہ دوسروں کو موقع ہی نہ ملتا ۔ کہ وہ کچھ پوچھ سکیں ۔ اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں ۔ کہ دیکھو حضور کو مخاطب کرنے سے پہلے عقیدت کے ثبوت میں کچھ نذرانہ پیش کرو ۔ جو فقراء کے لئے بمنزلہ خیرات کے ہو ۔ اور جس سے تمہاری پاکیزگی قلب اور خلوص کا امتحان ہوسکے ۔ اس حکم کا نتیجہ یہ ہوا ۔ کہ وہ ہجوم چھٹ گیا ۔ جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وقت ضائع کرتا تھا ۔ اور ان کو معلوم ہوگیا ۔ کہ ہماری شرارت کا پتہ چل گیا ہے ۔ لہٰذا یہ حکم بھی موقوف ہوا ۔ فرمایا ۔ اگر مخلصین کے لئے یہ خیرات دینا دشوار ہو ۔ تو وہ نہ دیں ۔ نماز اور زکوٰۃ کے نظام کو برقراررکھیں ۔ اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرتے رہیں ۔ بس یہی کافی ہے *۔ حل لغات :۔ صدقۃ ۔ خیرات * ءاسفقتم ۔ کیا تم ڈر گئے *۔