سورة المجادلة - آیت 11

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِي الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوا يَفْسَحِ اللَّهُ لَكُمْ ۖ وَإِذَا قِيلَ انشُزُوا فَانشُزُوا يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

اے ایمان والو! جب تمہیں کہا جائے کہ مجلسوں [١٢] میں کھل کر بیٹھو تو کھل کر بیٹھو اللہ تمہیں کشادگی [١٣] بخشے گا۔ اور جب کہا جائے کہ اٹھ [١٤] (کر چلے) جاؤ تو اٹھ جایا کرو۔ تم میں سے جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہیں علم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجے بلند [١٥] کرے گا۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

آداب مجلس (ف 1) صحابہ کو حضور (ﷺ) سے بدرجہ غایت محبت تھی اس لئے مجالس نبوی (ﷺ) میں خوب بھیڑ رہتی اور ہر شخص یہ کوشش کرتا کہ اس کو زیادہ قریب جگہ ملے تاکہ جمال نبوت سے وہ دل ودیدہ کی تسکین کا سامان بہم پہنچائے اس میں سبقت ہوتی اور بڑھ بڑھ کر لوگ آگے پہنچنے کی کوشش کرتے اور جب آدمی آکر یہ کہتے کہ بھائی ہمیں بھی جگہ دو تو وہ انہیں ناگوار ہوتا اور وہیں جمے رہتے ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ جب مجالس کا اہتمام کرو تو نشستیں کشادہ رکھو تاکہ بعد میں آنے والے لوگ بھی سماعت اور دیدار کی لذتوں سے استفادہ کرسکیں ۔ اور اگر تمہیں یہ کہا جائے کہ نشست بدل لو یا اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہو تو تمہیں اس میں تکلف نہ ہونا چاہیے کیونکہ یہ چیزیں آداب مجلس میں داخل ہیں اور مہذب قوموں کا فرض ہے کہ وہ ان چیزوں کا خیال رکھیں ۔ اس حقیقت کے اظہار سے دو باتیں خصوصیت کے ساتھ معلوم ہوئیں ۔ ایک تو یہ کہ صحابہ کو حضور (ﷺ) کے ساتھ کس درجہ عشق تھا کتنی محبت تھی اور کس درجہ تعلق خاطر تھا کہ حضور (ﷺ) جہاں تشریف فرما ہوئے یہ لوگ پروانہ وار گرتے اور کسب انوار کرتے ۔ دوسرے یہ کہ اسلام کتنا کامل اور صاحب تہذیب مذہب ہے کہ اس میں صرف عبادات اور معاشرت کی گتھیوں کو ہی نہیں سلجھایا گیا بلکہ روز مرہ کے اخلاق وعوائد پر بھی سلیقہ سے روشنی ڈالی گئی ہے ۔ حل لغات : فَافْسَحُوا۔ کھلے کھلے ہوکر بیٹھو ۔ انْشُزُوا۔ نشز کے معنی اٹھ کھڑے ہونے کے ہیں ۔