قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِي إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ
اللہ نے یقیناً اس عورت کی بات سن لی [١] ہے جو اپنے خاوند کے بارے میں (اے نبی) آپ سے جھگڑ رہی ہے اور اللہ کے حضور شکایت کر رہی ہے۔ اور اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا ہے۔ بلاشبہ اللہ سب کچھ سننے والا ہے دیکھنے والا ہے
عورت کا درجہ قانون میں ف 1: اسلام سے پہلے طلاق کی صورت یہ تھی کہ خاوند بیوی سے کہتا ۔ انت علی تظھرامی ۔ یعنی اب تو میرے لئے میری ماں کی حیثیت میں ہے ۔ اور بربنائے رواج پروہ عورت دامی طور پر مفارقت اختیار کرلیتی ۔ اس کی اصطلاح میں ظہار کہتے تھے * خولہ بنت ثعلیہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس فریاد لے کر آئی کہ الفاظ استعمال کئے ہیں ۔ میرے اولاد بھی ہے ۔ اگر ان الفاظ سے علیحدگی واقع ہوجاتی ہے ۔ تو بڑی مشکل کا سامنا ہے ۔ اولاد کو اگر خاوند کے سپرد کرتی ہوں تو مجھے خطرہ ہے ۔ کہ وہ شفقت سے ان کی تربیت نہیں کریگا ۔ اور اگر اپنے پاس رکھتی ہوں ۔ تو اندیشہ ہے ۔ کہ بھوکوں نہ مرجائیں ۔ میں ان کو کیوں کر پالوں گی ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ۔ کہ وہ جب یہ الفاظ کہہ چکا ہے ۔ تو اب تو اس پرحرام ہوچکی ہے ۔ اور میاں بیوی کے تعلقات منقطع ہوچکے ہیں وہ روئی اور کہتی یا رسول اللہ اس نے طلاق کے الفاظ استعمال نہیں کئے ہیں ۔ اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عام مسلک کی بنا پر یہی فرماتے ۔ کہ اب تو کوئی گنجائش نہیں ہے اتنے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کی کیفیت طاری ہوئی ۔ اور اظہار متعلق یہ آیات نازل ہوئیں ۔ جن میں بیاتا گیا ۔ کہ یہ جاہلیت کا دستور قطعاً غلط ہے ۔ کہ مطلقاً عورت کو ماں کہہ دینے سے وہ ماں بن جائے ۔ ماں تو وہی ہے ۔ جس نے اس کو جنا ہے ۔ اور جو اس کی وجد میں لانے کا باعث ہوئی ۔ یہ قول اور یہ انداز بیان غلط اور جھوٹ ہے *۔ اور اس کا کفارہ یہ ہے ۔ کہ باہمی اختلاط سے پہلے غلام آزاد کیا جائے ۔ یا دو ماہ کے متواتر روزے رکھے جائیں ۔ یا اگر اتنی بھی استطاعت نہ ہو ۔ تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے ۔ یہ اس لئے کہ ہر مسلمان کو معلوم ہو ۔ کہ یہ رشتہ کس درجہ ذمہ دارانہ سلوک کا مستحق ہے ۔ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے ۔ کہ جب کسی شخص کی تمام امیدیں دنیا والوں کی طرف سے منقطع ہوجائیں ۔ اور وہ توجہ وتضرع کے ساتھ جناب باری میں اپنی گزارشات کو پیش کو ے ۔ تو وہاں ضرور شتوائی ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بدرجہ غایت مہربان اور شفیق ہیں ۔ وہ ان کی معروضات کو پوری شان کرم کے ساتھ سنتے ہیں ۔ اور لباس قبولیت سے مشرف فرماتے ہیں ۔ دیکھئے یہاں ایک طرف رواج ہے ۔ کہ اس کی پابندیاں دوسری طرف ، بیک ضیعف اور سیکس عورت ہے ۔ جس میں اتنی قوت نہیں ہے کہ رواج کی کڑی انجیروں کو توڑ سکے ۔ مگر جب وہ روتی ہے ۔ اور الحاح وزاری اختیار کرتی ہے ۔ تو دریائے رحمت جوش میں آجاتا ہے ۔ اور محض اس ایک عورت کی وجہ سے ایک بات باقاعدہ قانون میں داخل ہوجاتی ہے *۔ حل لغات : تجادلک ۔ آپ سے جھگڑتی تھی ۔ جدل کا لفظ عربی میں اچھے اور برے دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ یہاں اس کا طلاق اچھے معنوں میں ہے * تحورکما ۔ باہمی گفتگو ۔ سمیع بصیر ۔ یہ اشارہ ہے اس حقیقت کی طرف کہ اسلام کے احکام معلم اور مصالح پر مبنی ہیں * رقبۃ ۔ گردن ۔ بندہ ۔ غلام آزاد کرنے کے پیدا کرتا ہے جس میں تمام آزاد کرنا ضروری ہو *۔