سورة الحديد - آیت 22

مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَهَا ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

کوئی بھی مصیبت جو زمین میں آتی ہے یا خود تمہارے نفوس کو پہنچتی ہے، وہ ہمارے پیدا کرنے سے پہلے ہی ایک کتاب [٣٨] میں لکھی ہوئی ہے (اور) یہ بات بلاشبہ اللہ کے لئے آسان [٣٩] کام ہے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

مسئلہ تقدیر کی بالکل آسان صورت ف 2: ہر وہ شخص جو خدا پر ایمان رکھتا ہے ۔ اور جہ یہ مانتا ہے ۔ کہ اس کو ذرہ وزرہ باتفصیلی علم ہے ۔ وہ لازم طور پر اس بات کا قائل ہے ۔ کہ کوئی چیز بھی اس کی گرفت سے باہر نہیں ۔ وہ چھپی ڈھکی سب اشیاء سے واقف ہے اور ہر بات کو وقوع سے پہلے جانتا ہے ۔ اسلام اس باب میں صرف یہ اضافہ کرتا ہے ۔ کہ یہ علم لوح محفوظ میں منضبط ہے ۔ اور فرشتوں کی سہولت کے لئے ایک کتاب میں لکھا رکھا ہے اور ظاہر ہے ۔ کہ اتنے سے اضافہ سے نفس مسئلہ کے سمجھنے میں کوئی نئی دلنوازی ہونا ضروری ہے ۔ اب قرآن بھی یہ کہتا ہے ۔ کہ علم غیب ضبط تحریر میں بھی آچکا ہے ۔ کے لئے اس میں کیا استحالہ ہے ۔ یہی تدیر ہے ۔ جس میں خواہ مخواہ بھاؤ پیدا کئے جاتے ہیں ۔ اور سمجھا یہ جاتا ہے ۔ کہ یہ مسئلہ نہایت ہی مشکل ہے اور ناقابل فہم حالانکہ یہ بات نہیں ہے ۔ بات صرف اتنی ہے ۔ کہ خدانے اس کائنات کو پیدا کیا ۔ اور وہ اس کی فطرت سے پوری طرح آگاہ ہے ۔ اور بس فرمایا ۔ مسئلہ تقدیر پر ایمان لانے سے یہ فائدہ ہوتا ہے ۔ کہ انسان مصائب ومشکلات میں گھبراتا نہیں ہے اور مسرت کے وقت جھلک نہیں جاتا ۔ وہ دکھ اور تکلیف کا دلیرانہ مقابلہ کرتا ہے ۔ اور سمجھتا ہے کہ اگر یہ چیزیں میری قسمت میں مقدر ہیں تو خوف وہراس کی کوئی وجہ نہیں ۔ الور مسرت وشادمانی میں اللہ کا شکرادا کرتا ہے ۔ اور اس کے حال میں ایمان موجود ہوتا ہے ۔ کہ یہ سب اس کی عنایات کی طفیل ہے ۔ ورنہ میرے اعمال ہرگز اس قابل نہیں ۔ گویا مسئلہ تقدیر ایک نوع کا کیرکٹر پیدا کرتا ہے ۔ اور مرد مسلمان کو بلند نگاہ دیتارہتا ہے ۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اس مسئلہ کو باالحق ضیافت دیکھتے ہیں ۔ اور کے معنے یہ سمجھتے ہیں ۔ کہ گل اور جدوجہد کی سرے سے ضرورت ہی نہیں کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا *۔ حل لغات : فاخور ۔ ہدایت ناز کرنے والا ۔ سرکش * وانزلنا الحدید ۔ نزول حدید ایک حقیت سے جس کا انکشاف اب ہوا ہے ۔ طبقات ارض کے ماہرین کا خیال ہے کہ زمین کے دوران اجتہاد میں لوہے کے ابر اٹھتے تھے اور بخارات کی اشکال میں ترشیح ہوجاتا تھا ۔ اس لئے جہاں یہ صحاب حدید برسا ہے وہاں لوہا موجود ہے اور وہیں لوہے کی کانیں موجود ہیں ۔ کس کے معنے یہ ہیں کہ قرآن حکیم نے ان سے چودہ سو سال قبل اس کا اظہار کیا ہے ۔ جبکہ القرآنی علم بھی بالکل ابتدائی منزل میں تھا *۔