وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولَٰئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ ۖ وَالشُّهَدَاءُ عِندَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ
اور جو لوگ اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائے ہیں وہی اپنے پروردگار کے ہاں صدیق [٣٢] اور شہید [٣٣] ہیں انہیں (اپنے اپنے اعمال کے مطابق) اجر بھی ملے گا اور روشنی [٣٤] بھی۔ اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیات کو جھٹلا دیا تو ایسے ہی لوگ اہل دوزخ ہیں۔
نبوت اور مقام صدیقت وشہادت (ف 2) نبوت کے سوا فضیلت اور روحانیت کے جس قدر مراتب ہیں وہ سب سعی وعمل اور ایمان واخلاص سے حاصل ہوسکتے ہیں ۔ گو اللہ تعالیٰ کو یہ منظور نہیں ہے کہ تکمیل دین اور اتمام نعمت کے بعد اب کوئی شخص برارہ راست استفادہ انوار لاہوت کا مدعی ہو ۔ مگر یہ ممکن ہے کہ ان ہستیوں کے تتبع اور اطاعت سے کہ جن کو فیضان نبوت سے وہ تمام رتبے حاصل ہوجائیں جو غیر انبیاء کے لئے مقدر ہیں ۔ لہٰذا ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ پرمحکم اور بے ریا ایمان رکھتا ہے اور جس کے قلب میں تمام انبیاء کے لئے عزت واحترام کے جذبات موجزن ہیں وہ اللہ کے نزدیک صدیق ہے ۔ اس کا رتبہ اور مقام عام مومنین سے بلند ہے ۔ اس طرح ایک مقام اللہ کا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ حقیقتاً اللہ کی راہ میں انسان اپنے کو ذبح کرڈالے کٹ مرے اور قلب ودماغ کی تمام صلاحیتوں کو اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے استعمال کرے یہ شہید ہے ۔ ان کے رہنے کا ٹھکانا اللہ کے قرب میں ہے ۔ اس کو دنیا میں بھی ایمان وبصیرت کی روشنی عطا کی جاتی ہے اور آخرت میں بھی یہ بلند مرتبہ بھی ہر اس شخص کو مل سکتا ہے جو برا نہ ہو ۔ امت محمدیہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس میں کا ہر فرد تقویٰ وورع کے فراز اعلیٰ تک رسائی حاصل کرسکتا ہے ۔ یہ یاد رہے کہ ﴿وَالشُّهَدَاءُ﴾یہاں بالکل مفعول اور علیحدہ ہے ۔ اس کا تعلق ﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا﴾سے نہیں ہے ۔ کیونکہ شہادت صرف ایمان سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ ایمان کے لئے مرجانے سے حاصل ہوتی ہے ۔ حل لغات : الصِّدِّيقُونَ۔ صدیق کی جمع ہے ۔ نہایت راست گو ۔وہ شخص جس میں حق کو قبول کرنے کی استعداد بدرجہ اتم موجود ہو ۔