هُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ عَلَىٰ عَبْدِهِ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ لِّيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۚ وَإِنَّ اللَّهَ بِكُمْ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ
وہی تو ہے جو اپنے بندے پر واضح آیات [١٣] نازل کرتا ہے تاکہ تمہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جائے اور اللہ تو یقیناً تم پر بڑا مہربان رحم کرنے والا ہے۔
فیضان نبوت ف 1: یعنی یہ کہ اللہ کی بخشش اور رحمت ہے ۔ کہ اس نے اپنے ایک نہایت ہی محترم بندے پر قرآن کی آیتیں نازل فرمائی ہیں ۔ تاکہ ان کی وساطت سے لوگوں کو اندھیروں اور تاریکیوں میں سے نکال کر روشنی اور نور کی وادیوں میں لابسائے ۔ ان کو اوہام اور خرافات کی ظلمتوں سے روکے ۔ اور حقائق ومعارف کی جانب راہنمائی کرے ۔ یہ اس کا فضل وکرم ہے ۔ کہ اس نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا ۔ تاکہ بنی نوع انسان کو گمراہیوں میں پڑنے سے باز رکھیں ۔ حالات یہ تھے ۔ کہ ہر نوع کی برائیاں اور جرم ان پر مسلط تھے ۔ چاروں طرف گناہوں کا تعفن تھا ۔ تعلیم الٰہی سے کان ناآشنا تھے ۔ اور طبائع متنفر بت پرستی اور تقلید آباء کا زور تھا ۔ رسوم بدنے ان کی زندگی کو اجیرن کر رکھا تھا ۔ فواحش عام تھے ۔ تقویٰ اور پاکبازی کا نشان تھا ۔ ان حالات میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے ۔ اور آپ کے فیض سے تاریکی کے بادل چھٹ گئے ۔ روشنی نظر آئی ۔ عقل وذہن میں تابندگی اور روشنی پیدا ہوگئی ۔ اخلاق مقولہ گئے اور ملاح نے ٹھانی ۔ یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تربیت کا نتیجہ تھا ۔ کہ امن کے ضامن قرار پائے ۔ ظالم اور جفاکار لوگوں نے خدمت وشفقت کا بہترین ثبوت دیا ۔ اور جو اکھڑا اور تند مزاج تھے سلیم اور حلیم بن گئے ۔ یہ ساقی کوثر کی فیاضی ہے ۔ کہ آج دنیا میں روشنی اور محبت موجود ہے ۔ اور مسلمان باوجود جغرافیائی تقسیم کے ایک وحدت دینی سے وابستہ ہیں ۔ اور ایک کنبہ کے فرد جیسے ہیں *۔ دین کا یہ تخیل کہ صداقت سب کی مشترکہ میراث ہے ۔ کس کا تخیل ہے ؟ یہ عقیدہ کہ ہر پیغمبر برابر کی تعظیم کا سزاوار ہے ۔ کس نے پیش کیا ۔ یہ خیال کہ دنیا کے ہر کونے میں انبیاء آتے اور خدا کی زمین کا کوئی گوشہ بررسالت کے فیض بخشیوں سے محروم نہیں رہا ۔ کس کی تعلیمات کا نتیجہ ہے ۔ اور لا تطہیاف بین احد من رسلہ کا ۔ دارآفرین ترانہ کس نے گایا *۔ حل لغات :۔ میراث ۔ قبضہ واقتدار *۔