هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۚ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا ۖ وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
اسی نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر [٥] قائم ہوا۔ جو چیز زمین میں داخل ہوتی، اسے بھی جانتا ہے اور جو نکلتی ہے اسے بھی (اسی طرح) جو چیز آسمان سے اترتی ہے وہ اسے بھی جانتا ہے اور جو کچھ اس میں چڑھتا [٦] ہے اسے بھی۔ اور جہاں کہیں بھی تم ہو وہ تمہارے ساتھ ہے اور جو [٧] کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے
حل لغات : ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ ۔ پھر وہ عرش تدبیر وحکومت پر قرار پذیر ہوا ۔ استویٰ کی تفصیلی بحث کئی مقامات پر گزر چکی ہے ۔ مختصر اً یوں سمجھ لیجئے کہ یہ ایک شان احدیت ہے ۔ صفت با نعت نہیں ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ کائنات کو پیدا کرنے کے بعد پھر اس نے اپنے مرکز تدبیر شؤون کی جانب توجہ مبذول فرمائی اور عرش سے کہ مقام تجلیات تخلیق ہے ۔ اور امر کو نافذ فرمایا ۔ يَلِجُ۔ ولوج سے ہے بمعنی داخل ہونا ۔