هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
وہی اول ہے اور آخر ہے اور ظاہر [٤] ہے اور پوشیدہ ہے اور وہ ہر چیز کو جاننے والا ہے
خدا اول کیوں کر ہے ؟ ف 1: خدا کی ایک صفت یہ بھی ہے ۔ کہ وہ اہل ہے ۔ اور اس کو کائنات کی ہر چیز پر تقدم حاصل ہے ۔ مگر قدیم حکماء کے لئے بڑی مشکل کا سامنا تھا ۔ وہ یہ نہیں سمجھتے تھے ۔ کہ اس تقدم کی نوعیت کیا ہے ۔ کیونکر انہوں نے عام طور پر تقدم کی پانچ قسمیں لکھی ہیں :۔ (1) تقدم بالتاثیر ۔ (2) تقدم باالاحتیاج (3) تقدم بالشرف (4) تقدم باالمرتبہ (5) اور تقدم بالریان *۔ اور پانچویں قسم کے تقدم کو تسلیم کرلینے میں انہیں عقلی استخانوں کا ایک انبار نظر آتا تھا ۔ اگر ہم یہ مانتے ہیں ۔ کہ وہ ذات زمانہ ہر شئے سے مقدم ہے ۔ تو خود اس جملے کا مفہوم کیا ہے ۔ کیونکہ اس کو اول کہنا یہ خرازمانے کو مستلزم ہے ۔ اور اس بات کا اقرار کرنا ہے ۔ کہ اس وقت بھی زمانہ کا کوئی حصہ ایسا تھا ۔ جس کو آپ اول فرض کرلیتے ہیں ۔ اور جس کی وجہ سے آپ خدا کو سب سے پہلے قرار دے رہے ہیں ۔ ورنہ اس کا کچھ اور مفہوم ہی نہیں ہوسکتا ۔ اس لئے سرگردہ واسلام یعنے امام رازی نے بھی یہاں کامل تحیر کا اظہار کیا ہے ۔ اور فرمایا ہے کہ ہم یہ اجمال کی شکل میں تو تسلیم کرتے ہیں ۔ مگر تفصیلات کا سمجھنا ہماری سمجھ سے باہر ہے ۔ خدا بھلا کرے ۔ نظریہ رضاقیت کے مصدق ” آئن سٹائن “ کا کہ اس نے اس الجھن کو دور کیا ۔ اور اس حقیقت کو پالیا ۔ اس نے کہا ۔ کہ زمانہ کوئی ازلی اور ابدی حقیقت نہیں ہے ۔ جیسا کہ تم سمجھتے ہو ۔ بلکہ یہ تو محض ایک اضافی چیز ہے ۔ اگر آج اشیاء موجود نہ رہیں ۔ یا ان میں حرکت مفقود ہوجائے ۔ تو زمانہ کا مفہوم ہی پیدا نہیں ہوسکتا ۔ اس لئے اس کا ازلاً اور ابداً موجود رہنا نہ صرف غیر ضروری ہے ۔ بلکہ عقلاً باطل ہے ۔ اس حکیم نے زمان ومکان کے تصور کو اس درجہ بدل دیا ہے ۔ کہ اب وہ پرانے اعتراضات قطعاً وارد نہیں ہوتے اب یہ عقیدہ کہ خدا اول ہے ۔ بالکل واضح ہے کہ اس زمانے اور مقام ومکان کو بھی پیدا کیا ہے ۔ کان واحد یان لئی اور وہ تمام مخلوق سے ان معنوں میں پہلے سے ۔ کہ اس کی شان صمدیت کے ساتھ وقت اور مقام کے لئے بھی کوئی جگہ نہ تھی ۔ اور وہ اس وقت تھا ۔ جبکہ خود عدم بھی معدوم تھا ۔ اور مکان بھی مقام للی قرار دیا * آخر کے معنی جیسا کہ حدیث میں آتا ہے ۔ کہ اس کے بعد کوئی چیز تمہیں ظاہر ہے ۔ کہ اس کا ثبوت بالکل بدیہی اور واضح ہے ۔ وجدان وذوق اس کو تسلیم کرتا ہے ۔ اور قطب ودماغ کے تمام گوشوں پر وہ مسلط ہے ۔ اگر انسان چاہے بھی کہ اس کا انکار کردے ۔ جب بھی اس کی وضاحت بھراعتراف کی زنجیریں لاکر پہنادیتی ہے ۔ باطن کہنے سے غرض یہ ہے کہ باوجود اس تیقن اور اس تحقق کے گار منطق اور غوروفکر کی چھائیوں میں اس کو جاننا چاہو ۔ تو ناممکن ہے ۔ اگر صحت اور فلسفہ کی آنکھوں سے دیکھا چاہو تو اس کا وجود سراپردہ خفاء میں ہے ۔ یعنی وہ مستور بھی ہے ۔ اور ظاہر بھی ہے ۔ اور واضح بھی ہے اور مخفی بھی *۔ حل لغات :۔ ثما استوی علی العرش ۔ پھر وہ عرش تذکیر وحکومت پر قرار پذیر ہوا ۔ استویٰ کی تفصیل بحث کئی مقامات پر گزر چکی ہے ۔ مختصر اً یوں سمجھ لیجئے ۔ کہ یہ ایک شان حدیث ہے ۔ صفت بالفت نہیں ہے جس کے معنے یہ ہیں ۔ کہ کائنات کو پیدا کرنے کے بعد پھر اس نے اپنے مرکز تدبیر شعون کی جانب توجہ مبذول فرمائی ۔ اور عرش سے کہ مقام تجلیات تخلیق ہے ۔ اور امر کو نافذ فرمایا *۔ یلج ۔ لوح سے ہے بمعنے داخل ہونا *۔