إِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُ
جب واقع ہونے والی (قیامت) واقع ہوگی
سورہ الواقعۃ قرآن حکیم میں قیامت کے مختلف نام آئے ہیں ۔ کہیں اس کو اقاعۃ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ کہیا القارعۃ کہا گیا ہے ۔ کبھی الحاقۃ سے موسوم ہے ۔ اور کبھی الواقعہ کی صفت سے متصف ۔ کیونکہ اصل غرض یہ ہے کہ اس کے مختلف پہلوؤں کو روشن کیا جائے ۔ اس لحاظ سے کہ اس کے آنے کا ایک وقت مقرر ہے ۔ وہ افسانہ ہے ۔ یعنی متعین گھڑی ۔ اور اس لحاظ سے کہ وہ عالم وجود میں تہلکہ مچانے والی ہے ۔ القارعۃ ہے ۔ اسی نسبت سے کہ اس کا تحقق مقدرات میں سے ہے ۔ الحاقۃ کہا جاتا ہے ۔ الواقعہ کے معنے یہ ہونگے ۔ کہ تحقق خارج میں ضرور واقعہ ہوگا ۔ اور اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ۔ فرمایا ۔ جب یہ گھڑی آموجود ہوگی ۔ تو اس وقت کئی اکڑی ہوئی گردنیں جھک جائیں گی ۔ اور کئی جھکتے ہارے سر بلند ہوجائیں گے ۔ جو لوگ دنیا کے مال ومتال میں مست تھے ۔ جو آنکھ اٹھا کر بھی حق وصداقت کی طرف نہیں دیکھتے تھے ۔ کبروغرور میں ہر چیز کو بھول چکے تھے ۔ چلتے تھے ۔ تو یوں کہ محشر بپا ہو ۔ اور بیٹھتے تو اس طرح کہ مسند عزت وفخران کے قدم لیتی ۔ وہ آج پستی اور ذلت کی حالت میں سرفگندہ اللہ کے حضور میں کھڑے ہونگے ۔ ان کا سارا غرور اور نازخاک میں مل جائے گا ۔ اور ان کو معلوم ہوجائیگا ۔ کہ اللہ کے ہاں سرفرازی ۔ ان لوگوں کیلئے ہے ۔ جو دل کے عاجز ہیں جن کی طبیعت میں سچائی کی قبولیت کی استعداد ہے ۔ اور جن کو دنیا میں نہایت ذلیل سمجھا جاتا تھا ۔ جن کو ہذف مذاق بنایا جاتا تھا ۔ جن کی مخالفت کی جاتی تھی جن کو زندگی کی تمام آسودگیوں سے محروم سمجھا جاتا تھا ۔ جن کے متعلق رائے تھی ۔ کہ ان میں ارتقاء اور ترقی کی اصلاً کوئی صلاحیت موجود نہیں ۔ اور جن کو جنوں اور خلل دماغ کے عارضے سے متہم کیا جاتا تھا ۔ آج ان کا مقام بلند ہوگا ۔ آج یہ کامیاب ہونگے ۔ اور ان کو خدا کی رضا کا مقام میسر ہوگا قبع یہ ان لوگوں میں سے ہونگے ۔ جن میں تنومند اور پاکیزہ ترین روح ہوتی ہے ۔ آج ان کا شمار ان حضرات میں ہے ۔ جن کی نگاہیں دور رس تھیں ۔ جنہوں نے دنیا میں رہ کر عقبیٰ کی اہمیت کے متعلق صحیح رائے قائم کی *۔ حل لغات :۔ رجا ۔ تزلزل پیدا کرنا * لھا ۔ ریزہ ریزہ کرنا * ھباء ۔ غبار *