وَكُلُّ صَغِيرٍ وَكَبِيرٍ مُّسْتَطَرٌ
اور ہر چھوٹی اور بڑی بات لکھی [٣٧] ہوئی موجود ہے۔
قضاوقدر کیا ہے ۔ ! ف 1: صدیوں سے مسئلہ متکلمین کے نزدیک مابہ التراع رہا ہے ۔ کہ تضادوقدر کا مفہوم کیا ہے ۔ کیا اللہ تعالیٰ بندوں کے تمام افعال کو خود پیدا کرتا ہے ۔ یا بندے اپنے اعمال میں آزاد اور خود مختار ہیں ۔ اس باب میں اول شرعی احتساب اور باز پرس کی حدود سمجھ لیجئے ۔ اگر یہ فیصل شدہ ہے ۔ کہ سب کچھ پہلے سے مقدر ہوچکا ہے ۔ اور حرکت اور جنبش فکر پہلے سے متعین اور مقرر ہے ۔ تو پھر گناہ اور معصیت کسے کہتے ہیں ۔ اور اگر ہم بالکل آزاد اور خودمختار ہیں ۔ تو اس قضا وقدرکے مسئلہ کی حیثیت کیا ہے *۔ جواب یہ ہے ۔ کہ قرآن کے نقطہ نگاہ سے انسان کی پوری زندگی اللہ تعالیٰ کو بوجہ اس کے علیم ہونے کے معلوم ہے ۔ اور مقررومتعین بھی ہے ۔ مگر اس کے یہ معنی نہیں ہیں ۔ کہ وہ تقرر وتعین جو بمرتبہ علم کے ہے ۔ ہمارے اعمال وافعال پر اثر انداز بھی ہوتا ہے ۔ اس کے معنی تو یہ ہیں ۔ چونکہ وہ خدا ہے ۔ اور اس نے کائنات کو پیدا کیا ہے ۔ اس لئے وہ سا کی نیچر سے پورے طور پر آگاہ ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ انسان اپنی زندگی میں کن اعمال کا ارتکاب کریگا ۔ اور کس طرح کے عقائد رکھے گا ۔ یہ علم اس لئے ہے ۔ کہ وہ خدا ہے ۔ اس لئے نہیں کہ اس کا تعلق ہمارے اعمال وافعال سے ہے ۔ یعنی علم موثر نہیں ۔ جبکہ نتیجہ ہے ۔ اس کی ذات معارف صفات کا *۔ مسئل کا یہ پہلو ایسا ہے ۔ کہ تمام خدا پرست اس کو تسلیم کریں ۔ کیونکہ خدا کے لئے کائنات کے متعلق بالتفصیل معلومات رکھنا ضروری ہے ۔ یہ ایسا مسئلہ ہے ۔ جس کا تعلق براہ راست اس کے تخیل کے ساتھ وابستہ ہے ۔ کوئی شخص جو خدا کو مانتا ہے ۔ اس کا انکار نہیں کرسکتا ۔ ہاں اس آیت میں ایک امر زائد یہ بتایا گیا ہے ۔ کہ اللہ تعالیٰ نے یہ معلومات لوح محفوظ میں ثبت فرما رکھی ہیں ۔ تاکہ فرشتے جو کائنات میں نظم ونسق پر مامور ہیں ۔ اس کے مطالعہ سے بہرہ مند ہوں ۔ اور اس میں کوئی عقل استحالہ موجود نہیں ۔ باقی رہی یہ بات کہ انسان مجبور ہے ۔ یا مختار ۔ یہ ایک جدا محبت ہے اس کا تعلق اس مسئلہ کے ساتھ نہیں ہے *۔ حل لغات :۔ ادحی ۔ بہت سخت دھاء سے ہے * یستعبون ۔ کشاں کشاں لے جائے جائینگے * سقر ۔ دوزخ کا نام ہے * کلمح ۔ جیسے آنکھ کا جھپکانا * اشیاء کم ۔ ہم مسلک *۔