سورة القمر - آیت 37

وَلَقَدْ رَاوَدُوهُ عَن ضَيْفِهِ فَطَمَسْنَا أَعْيُنَهُمْ فَذُوقُوا عَذَابِي وَنُذُرِ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور ان سے ان کے مہمانوں کا مطالبہ کرنے لگے تو ہم نے ان کی آنکھوں کو بے نور [٢٧] بنا دیا (اور کہا) اب میرے عذاب اور میری تنبیہ کا مزا چکھو

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

خوبصورت مہمان حضرت لوط نے سدومیوں کو سمجھایا ۔ کہ تمہاری یہ بدفعالیاں تمہارے حق میں اچھی نہیں ۔ یہ بربادی اور تباہی فاہش ہیں ۔ جب تم فطرت کے خلاف جنگ کروگے ۔ تو ابتداً فطرت تمہارے لئے سامان ہلاکت پیدا کردے گی ۔ اور تم سے سخت ترین انتقام لے گی ۔ تم اس فعل شنیع سے باز آجائے ۔ اور پاکبازی کی زندگی بسر کرو ۔ مگر سدومیوں کے دل مسخ ہوچکے تھے ۔ ان پر شیطان پورا قبضہ کرچکا تھا ۔ انہوں نے نہ صرف انکار کردیا ۔ بلکہ خیائت نفس کا بدترین مظاہر کیا *۔ چنانچہ انہوں نے جب سن پایا ۔ کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس نہایت خوبصورت مہمان آئے ہیں ۔ تو آتے ہی ان کے مکان کا محاصرہ کرلیا ۔ اور مطالبہ کیا کہ ان کو ہمارے سپرد کردیا جائے ۔ حضرت لوط نے بہتیرا سمجھایا کہ کم بختو ۔ یہ میرے مہمان ہیں ۔ ان کی توہین کرکے مجھے رسوا نہ کرو ۔ اللہ کے عذاب سے ڈرو ۔ اور پاکبازی اختیار کرو ۔ لیکن انہوں نے ایک نہ سنی ۔ اور برابر خواہشات بد کا اظہار کرتے رہے *۔ وہ ہجوم کرکے آئے ۔ اور آخر ان خوبصورت مہمانوں نے جو درحقیقت اللہ کے فرشتے تھے ۔ حضرت لوط کو تسلی دی ۔ اور سدومیوں کو بصارت سے محروم کردیا ۔ اور اس کے بعد ان کو موت کے گھاٹ اتاردیا ۔ اس وقت ان سے کہا گیا ۔ کہ یہ میرا عذاب ہے ۔ اس سے تم کو ڈرایا جاتا تھا ۔ اب اس کو چارہ ناچار گوارا کرو *۔ حل لغات :۔ فعقر ۔ کونچے کاٹ ڈالنا * المختظر ۔ حطبرۃ سے ہے ۔ جس کے معنے باڑ کے ہیں ۔ یعنی باڑ لگانے والا * حاصبا ۔ پتھروں کی بارش ۔ وہ سخت ہواخوفناک اور سنگریز سے اڑادے ۔ اور برف اور راہ لے برسانے والے ابر کو بھی خاصیب کہتے ہیں *۔