سورة القمر - آیت 1

اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

(قیامت کی) گھڑی قریب آگئی اور چاند پھٹ [١] گیا۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

سورۃ القمر اس سورت کا آغازایک عظیم الشان خرق عادت کے طور پر ہوتا ہے ۔ بات یہ تھی کہ کفار مکہ ایک طرف تو قیامت کے تخیل کا مضحکہ اڑاتے تھے اور دوسری طرف کسی حیران کن معجزہ کے طالب تھے جو ان کی نظروں میں خیر گی پیدا کردے اور ان کے حواس معطل کرکے رکھ دے ۔ جس کو وہ دیکھیں اور اس کی کوئی عقلی توجیہ پیش نہ کرسکیں ۔ چنانچہ ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہے کہ ایک بھرے مجمع میں حضور (ﷺ) سے مطالبہ ہوا کہ یہ چاند جو نظر آرہا ہے اس کے دو ٹکڑے ہوجائیں ۔ حضور (ﷺ) نے سنا انگلی سے اشارہ کیا تو چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے ۔ لوگوں میں ہل چل مچ گئی کچھ حیرت تھی کچھ نہ ماننے کی قید اس لئے اس عظیم الشان معجزہ کو دیکھ کر بھی وہ یہی کہہ سکے کہ یہ جادو ہے نظر بندی ہے اور سحر ہے ۔ مقصد یہ تھا کہ ایک طرف تو وہ اس خرق عادت امر کو دیکھیں اور اپنے مشاہدہ سے سارے فلسفہ یونان کو جھٹلا دیں اور دوسری طرف قیامت کے امکانات ان پرزیادہ روشن ہوجائیں انہیں معلوم ہوجائے کہ جس طرح یہ کرہ نور آن کی آن میں دو ٹکڑوں میں منقسم ہوگیا اور پھر جڑ گیا اسی طرح قیامت آئے گی اور یہ بزم دنیا بکھر جانے کے بعد پھر سدھر جائیگی ۔ یہی وجہ ہے﴿وَانْشَقَّ الْقَمَرُ سے پہلے﴿اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ﴾ کو بیان فرمایا اور اس معجزہ کو قیامت کی نشانی قرار دیا ہے ۔ مگر بعض لوگوں نے اس باریک نکتہ کونہ سمجھا اور یہ کہا کہ قرب قیامت کا ذکر کرنے سے مقصود یہ ہے کہ یہ واقعہ قیامت کو ہوگا ۔ اس وقت چاند پھٹے گا اور اور ستارے گرینگے ۔ لیکن یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ اس واقعہ کو قرآن نے آیت اور بہت بڑی نشانی قرار دیا ہے ۔ اور وہ لوگ جو اس کو نہیں مانتے ان کے متعلق کہا ہے کہ یہ لوگ خواہش کی پیروی میں مبتلا ہیں ۔ اگر اس کا تعلق قیامت سے ہوتا تو پھر نہ اس کو نشانی قرار دینے کی ضرورت تھی نہ سحر اور جادو کہنے کی اور نہ تکذیب کا کوئی موقع تھا اور نہ خواہشات کی پیروی کا ۔ کیونکہ جب چاند کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے اور بساط ہی الٹ دیجائیگی اس وقت لوگوں کو زندہ رہنے اور غدر ومعذرت کرنے کا وقت ہی کہاں ملے گا وہ تو ایک گھڑی میں سارا کھیل ہی ختم ہوجائیگا ۔ ان حالات میں آنکھیں کھلیں گی اور سرکش اور متمرد انسان دیکھے گا کہ جس چیز کو میں بھلاتا تھا وہ میرے سامنے آج موجود ہے ۔ آیات کے انداز بیان سے ہی مفہوم اور مترشح ہے کہ یہ کوئی اہم واقعہ ہے جو گزر چکا ہے ۔ جو اس قابل تھا کہ یہ لوگ اس سے عبرت حاصل کرتے مگر انہوں نے اپنی روایتی بدبختی کی وجہ سے نہیں مانا ۔ صحیح اور واضح تر احادیث میں بھی اس کی تفصیلات موجود ہیں ۔ رہے وہ اعتراضات جو عقل وحکمت کے نام سے پیش کئے جاتے ہیں تو اس کا صرف ایک جملہ میں یہ جواب ہے کہ اگر خدا پر ایمان ہے تو پھر کوئی چیز بھی ناممکن نہیں ۔