سورة النجم - آیت 2

مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَىٰ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

تمہارے رفیق [٢] نہ تو راہ بھولے اور نہ بے راہ چلے

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

جبریل کو دیکھا (ف 3) یعنی جس طرح ستارے غروب کے وقت سمت کا صحیح صحیح پتہ دیتے ہیں اور گم گشتگان راہ ان کو دیکھ کر اپنا راستہ پالیتے ہیں حضرت محمد (ﷺ) ہدایت کے کوکب تابان ہیں اور جو کچھ کہتے ہیں اس میں گمراہی اور فکرواستقلال کی لغزش کو قطعاً دخل نہیں ۔ ان کی سب باتیں وحی والہام کا نتیجہ ہوتی ہیں یہ اپنی طرف سے اپنی خواہش کے مطابق نہیں کہتے ۔ ان کے خیالات اور ان کی خواہشات نفس کے تابع نہیں ۔ منشاء الٰہی کے ان کے معلم جبرائیل ذی قوت ہیں ۔ جن کی اتقاء کی استعداد بہت زبردست ہے ۔ آپ نے ان کو اپنی پوری شکل میں دیکھا ہے جب کہ یہ آسمان کے بلند ترین کنارے پر متمکن تھے ۔ پھر جب قریب ہوئے کچھ جھکے اور اترے ۔ اور دو کمانوں کے برابر یا کم فاصلہ دونوں میں رہ گیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی وساطت سے اپنے بندے کو مخاطب کیا اور رشدوہدایت کے منصب پر فائز کیا ۔ اس ضمن میں دل نے جو کچھ دیکھا اس میں جھوٹ اور فریب نظر نہیں تھا ۔ یہ ایک حقیقت تھی اور واقعہ تھا ۔ تم کو اگر شبہ ہے تو ہوا کرے ۔ انہوں نے جبرائیل کو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا ہے سدرۃ المنتہیٰ کے نزدیک جس کے قریب ہی جنت ہے جب کہ اس پر انوار وتجلیات چھارہی تھیں ۔ اس وقت بھی نگاہوں نے امرواقعہ کا جائزہ لینے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ۔ اللہ کی بڑی بڑی نشانیوں کو آپ نے دیکھا اور اس کی بےانتہا قدرتوں کا اندازہ کیا ۔ ﴿صَاحِبُكُمْ﴾ کا لفظ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ جس پیغمبر نے تمہارے سامنے چالیس برس کی ایک عمر بسر کی ہے اور کبھی اس کا دامن جھوٹ سے آلودہ نہیں ہوا ۔ کیا تم سمجھ سکتے ہو کہ ایک دم وہ اس درجہ افتراء پرداز ہوگیا ہے کہ جھوٹے واقعات کو اللہ کی جانب منسوب کرنے لگے ۔