فَلْيَأْتُوا بِحَدِيثٍ مِّثْلِهِ إِن كَانُوا صَادِقِينَ
اگر وہ (ان باتوں میں) سچے ہیں تو پھر اسی جیسا [٢٧] کوئی کلام بنا لائیں
ف 1: فرمایا : کہ آپ ان لوگوں کے الزامات کی پرواہ نہ کیجئے ۔ اور برابر ان کو اللہ کا پیغام سناتے رہیے ۔ نہ آپ کاہن ہیں ۔ نہ مجنون ۔ آپ کی دماغی قابلیتوں کا اندازہ یہ لوگ نہیں کرسکتے ۔ نہ یہ کہ آپ شاعر ہیں ۔ اگر یہ لوگ زمانہ کے حوادث کے منتظر ہیں ۔ تو بات درست ہے ۔ ان سے کہیے ۔ کہ میں بھی منتظر ہوں *۔ اور ان سے پوچھئے ۔ کہ یہ متضاد باتیں آپ کی طرف کیوں منسوب کرتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ یہ کہانت جانتا ہے ۔ جس کے لئے ذہانت کی ضرورت ہے ۔ اور کبھی خلل دماغ کا طعنہ دیتے ہیں ۔ اور یہ دونوں باتیں متناقص ہیں ۔ کیا ان کی عقلوں کا یہ فتویٰ ہے ۔ یا محض شرارت ان لوگوں سے کہیئے کہ اگر ان کو قرآن کے کلام الٰہی ہونے میں شبہ ہے ۔ تو ایسا کلام بنا کر پیش کریں ۔ اور عملاً ثابت کریں ۔ کہ انسان ایسے بلند پایہ پیغام کو وضع کرسکتا ہے ۔ مگر یہ تاریخ اسلام کی حیرت انگیز واقعہ ہے ۔ کہ گو قرآن نے بار بار ان کی ادبی غیرت اور حمیت کو ابھارا اور کہا ۔ کہ وہ آئیں اور قرآن کا مقابلہ کریں ۔ لیکن ان کو قطعاً اس کی جرات نہیں ہوسکی ۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں ۔ کہ باوجود فصاحت وبلاغت کے چرچوں کے ان لوگوں نے ایک دفعہ کوئی چیز لکھیں ۔ کیونکہ یہ لوگ جانتے تھے ۔ کہ اس کا انداز بیان بالکل نادر ہے ۔ اور انسان طاقت اور وسعت سے اس کا جواب ناممکن ہے *