سورة الطور - آیت 27

فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُومِ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

سو (آج) اللہ نے ہم پر احسان فرمایا اور ہمیں لو کے عذاب سے بچا لیا۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

اعمال کی اصلی حیثیت (ف 2) اہل جنت جب اللہ تعالیٰ کی نعمت ہائے گوناگوں کو دیکھیں گے اور محسوس کرینگے کہ یہاں کامل صحت اور مسرت کا سامان موجود ہے تواز راہ شکر گزاری آپس میں اللہ کے اس احسان عظیم کا تذکرہ کرینگے کہ دنیا میں ہم عاقبت سے بہت ڈرتے تھے اور خشیت اور خوف کے جذبات ہم پر طاری رہتے تھے ۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے کہ اس نے عذاب نار سے بچا لیا ۔ گویا یہ پاکباز نفوس اس وقت بھی کبروغرور کی آسودگی سے اپنے دامن کو ملوث نہ کرینگے اس وقت بھی یہی کہیں گے کہ اس مقام بلند تک رسائی جو ہوئی ہے تو محض اس کے کرم اور مہربانی کی وجہ سے ورنہ ہمارے اعمال اس لائق کہاں تھے کہ اس درجہ انعام واکرام کے مستحق ہوتے ۔ ہم اللہ کو دنیا میں مخاطب تو کرتے تھے دعاؤں میں پکارتے بھی ضرور تھے مگر یہ محض اس کی شفقت اور رحمت ہے کہ اس نے ہم گنہگاروں کو جنت کی نعمتوں سے نوازا اور ہماری سن لی ۔ اصل بات یہ ہے کہ اسلامی نقطہ نگاہ سے اعمال انسان کو اس قابل بنادیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی آغوش رحمت میں لے لے۔ اعمال براہ راست نجات کا استحقاق نہیں پیدا کرتے کیونکہ قدرت کی طرف سے انسان پر احسانات کا بار اتنا بڑا ہے کہ اگر مومن منہ سے احساس وشکر کے دریا بہادے جب بھی عہدہ برآء نہیں ہوسکتا ۔ چہ جائے کہ اس کے اعمال عنداللہ محسوب ہوں ۔ کیونکہ بڑے سے بڑا عمل بھی اس کے نزدیک حقیر ہے اور کوئی وقعت نہیں رکھتا ۔ ازدست وزبانے کو برآئند کز عہدہ شکرش بدرآید