يَتَنَازَعُونَ فِيهَا كَأْسًا لَّا لَغْوٌ فِيهَا وَلَا تَأْثِيمٌ
وہاں وہ لپک لپک [١٨] کر ایک دوسرے سے جام شراب لیں گے جس میں نہ یا وہ گوئی [١٩] ہوگی اور نہ کوئی گناہ کا کام
اہل دوزخ ف 1: غرض کہ لفظ قرآن حکیم میں عموماً برے معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔ اس سے مقصود وکفر والحاد میں شغف اور انہماک ہے ۔ برائی اور معصیت سے لگاؤ ہے ۔ اور فسق وفجور سے محبت ہے ۔ غرض یہ ہے کہ یہ لوگ قیامت کے دن بہت برے عذاب میں گرفتار ہوں گے ۔ دنیا میں تو غفلت کے پردے ان کی آنکھوں پر پڑے تھے ۔ اور یہ لوگ سوچنے اور غور وفکر کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کرتے تھے اور سوچتے بھی تھے تو یہ کہ کس طرح اس آفتاب نبوت کی روشنی سے لوگوں کو محروم رکھا جاسکتا ہے ۔ مگر اب دونوں آنکھیں کھلیں گی ۔ بصیرت کی بھی اور بصارت کی بھی ۔ یہاں یہ دیکھیں گے کہ فرشتے پکڑ پکڑ کر ان کو دوزخ کی طرف لے جارہے ہیں ۔ اور کہہ رہے ہیں ۔ دیکھ لیجئے یہی وہ دوزخ ہے ۔ جس کی تم تکذیب کرتے تھے ۔ اور جس کے متعلق تمہارا یہ خیال تھا ۔ کہ یہ محض ڈھکو سلا ہے ۔ کہاں کی آگ اور کہاں کا عذاب خوب اچھی طرح دیکھ لو ۔ کہیں جادو کی کرشمہ سازی تو نہیں ۔ کوئی شعبدہ بازی تو انہیں ہے ۔ اگر یہ واقعہ ہے کہ خلاف توقع تمہیں جہنم میں پھینک دیا گیا ہے ۔ تو پھر اب اس کو برداشت کرو ۔ یانہ کرو ۔ چارو لاچار رہنا پڑیگا ۔ کیونکہ تمہارے اعمال اسی جگہ کے مقتضی ہیں ۔ یہ اللہ کا مقام غضب سے یہاں وہ لوگ رہتے ہیں جنہوں نے دنیا میں اس کے احکام سے لاپروائی کی ہے ۔ اور ادنی ترین آسائیشوں کی خاطر ہمیشہ کے عیش اور رحیم وروح کی بالیدگی کو چھوڑ کر ترک کیا ہے ۔ جنہوں نے وہاں کبروغرور کا مظاہر کیا ہے ۔ اور صداقت کو محض اس لئے تسلیم نہیں کیا کہ اس کو پیش کرنے والا ایک انہیں میں کانسان ہے ۔ محض اس لئے ایمان کی دولت سے محروم رہے ۔ کہ اس کو لٹانے والا دنیوی اعزازات کا حامل نہیں ہے اور اللہ کو چھوڑ کر انہوں نے دوسرے آستانوں پر اپنے سر کو جھکایا ہے ۔ خود اپنی توہین کے مرتکب ہوئے اور باری تعالیٰ کی جناب میں بھی گستاخی کا اظہار کیا ہے *۔ حل لغات :۔ یدعون ۔ کشاں کشاں لائے جائیں گے *۔