فَمَا وَجَدْنَا فِيهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِينَ
چنانچہ ہم نے وہاں ایک گھر کے سوا کوئی مسلمانوں [٣٠] کا گھر نہ پایا
سدومیوں کی بداخلاقی ف 1: جب کوئی قوم خواہشات نفس سے مغلوب ہوجائے ۔ لوگوں کو روحانیت مذہبی اور دینی تربیت کیساتھ لگاؤ باقی نہ رہے ۔ زندگی کا مقصد ارزل ترین حیات وجذبات کی تکمیل کا سامان قرار پائے اور روح کی مقتضیات سے یک فلم آنکھیں بند کرلی جائیں ۔ اس وقت دلوں سے پاک بازی اور پرہیزگاری کے خیالات دور ہوجاتے ہیں ۔ اللہ کا ڈر نکل جاتا ہے ۔ اور شیطان غالب ہوجاتا ہے ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے ۔ کہ حیوانیت چھا جاتی ہے ۔ شہوایت مسلط ہوجاتی ہے اور ایسے ایسے ناپاک اعمال کی جستجو رہتی ہے ۔ جن کے تخیل سے شرافت منہ چھپالے ۔ سدومیوں کی بالکل یہی کیفیت تھی ۔ جب حضرت لوط (علیہ السلام) ان کے پاس تشریف لائے ۔ تو ان لوگوں کی اخلاقی اور ذہنی حالت بالکل پست ہوچکی تھی ۔ دن رات ان کا مشغلہ یہی تھا ۔ کہ غیر فطری طور پر جذبات جنسی کی تسکین کے لئے مارے مارے پھریں ۔ چھوٹ سے لے کر بڑوں تک اور جاہلوں سے پڑھے لکھوں تک سب اسی دھن میں تھے ۔ ہر مجلس اور ہر جگہ انہیں باتوں کا چرچا تھا ۔ انہیں خیالات کی اشاعت تھی اور اس حد تک یہ برائی ان کی رگ رگ میں سرایت کرچکی تھی ۔ کہ جب حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان کو ٹوکا اور متنبہ کیا ۔ تو ان کو اس پاکبازی پر تعجب ہوا ۔ اور صاف کہنے لگے کہ تمہیں اس قدر پرہیزگاری کا خایل ہے تو اس ملک کو چھوڑ دو ۔ ہم تو باز نہیں آئیں گے ۔ بدبختی کی انتہا دیکھئے ۔ کہ جب فرشتے ان کے پاس آئے تاکہ ان کی بستیوں کو لٹ دیں ۔ تو انہوں نے ان کو خوبصورت لڑکوں کی شکل میں دیکھ کر اپنی ناپاک خواہشات کی تکمیل کے لئے منتخب کرنا چاہا ۔ یہ فرشتے پہلے حضرت ابراہیم کے پاس آئے تھے ۔ تاکہ ان کو حضرت اسحاق کی ولادت کی خوشخبری سنائیں ۔ چنانچہ جب وہ یہ خوشخبری سنا چکے تو حضرت ابراہیم نے پوچھا ۔ کہاں کے ارادے ہیں ۔ تو انہوں نے بتلایا ۔ کہ سدومیوں کی ناقاک اور مجرم قوم کے ہاں جارہے ہیں ۔ تاکہ ان پر عذاب کے پتھر برسائیں ۔ اور موت کے گھاٹ اتار دیں ۔ کیونکہ انہوں نے زندگی کانہایت ناجائز استعمال کیا ہے ۔ اور خطرہ ہے ۔ کہ ان کی بداعمالی آئندہ نسلوں تک متجاوز نہ ہوجائے *۔ واضح رہے کہ یہ جرم اتنا ذلیل ، اس قدر خطرناک اور برا ہے ۔ کہ اس کے انسداء کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط (علیہ السلام) ایسے پاکباز انسان کو خصوصیت کے ساتھ بھیجا ۔ تاکہ وہ بلا خوف قوم کو ان بدخیالات اور فواحش سے روکیں ۔ کیونکہ اس فعل شنیع سے قومیں صرف بداخلاق ہی نہیں ہوجاتی ہیں ۔ بلکہ ذہنی اور دماغی لحاظ سے پست اور ذلیل بھی ہوجاتی ہیں ۔ ان میں قوت واستعداد باقی نہیں رہتی ۔ کہ وہ دنیا میں تنومند اور ہشاش بشاش انسانوں کی طرح زندہ رہیں ۔ اور تمدن انسانی میں کیف ونشاط کا اضافہ کریں ۔ بلکہ اس زہر سے سارا جسم ماؤف ہوجاتا ہے ۔ دل ودماغ کی صلاحتیں چھن جاتی ہیں ۔ اور جرات وحوصلہ مفقودہوجاتا ہے ۔ بالآخر انجام یہ ہوتا ہے ۔ کہ اس نوع کی قوم حوادث کا مقابلہ نہ کرسکنے کی وجہ سے بالکل مٹ جاتی ہے ۔ یا حیوانات کی طرح زندگی بسر کرتی ہے * اس لئے آج بھی ہمارے علماء اور قائدین کو اس بیماری کے استیعا کے لئے کمر بستہ ہوجانا چاہیے ۔ اور اپنی قوم کے نوجوانوں کو اس نوع کے خیالات سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرنا چاہیے ۔ اور ان کے ذہن نشین کرانا چاہیے ۔ کہ قومیں صرف اپنے اخلاق حمیدہ ہی سے زندہ رہی ہیں * حل لغات :۔ خطبکم ۔ حالت کیفیت ۔ کار ۔ حال *۔ مسومۃ ۔ نشاندار ۔ عینی متعین * برکبہ ۔ اپنے ارکان حکومت کے ساتھ *۔