مَّا كَانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَىٰ مَا أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّىٰ يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ ۗ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ۚ وَإِن تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌ
اللہ تعالیٰ مومنوں کو اسی حال پر نہ چھوڑے [١٧٦] گا جس حال پر اس وقت تم ہو تاآنکہ وہ پاک کو ناپاک سے جدا نہ کردے۔ اللہ کا یہ طریقہ نہیں کہ وہ تمہیں غیب [١٧٧] پر مطلع کردے۔ بلکہ (اس کام کے لیے) وہ اپنے رسولوں میں سے جسے چاہتا ہے منتخب کرلیتا ہے۔ لہٰذا اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ۔ اور اگر تم ایمان لے آئے اور اللہ سے ڈرتے رہے تو تمہیں بہت بڑا اجر ملے گا
امتیاز حق وباطل : (ف ١) یہ آیت بھی سیاق احد میں ہے مقصد یہ ہے کہ یہ تمام مصائب جو اس جنگ میں برداشت کرنے پڑے ہیں ‘ یہ سب اس لئے تھے ، تاکہ حق وباطل میں فرق ہوجائے ، اللہ تعالیٰ نہیں چاہتے کہ زیادہ دیر تک منافقین کم ہمت لوگ مسلمانوں میں طے جلے رہیں اور مسلمانوں کو دھوکا دیتے رہیں ۔ وقت آگیا ہے کہ دونوں فریق الگ الگ اور ممتاز ہوجائیں ۔ (آیت) ” وما کان اللہ لیطلعکم علی الغیب “ کہہ کر یہ بتایا ہے مخلص وغیر مخلص میں جو اختلاف ہے ‘ یہ تمہاری نظروں سے اوجھل ہے یہ نہیں جانتے تھے کہ کون دل میں ایمان کی پونجی مستتر رکھتا ہے اور کون ہے جس کا دل خبث ونفاق سے متعفن ہے ، اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وساطت سے تمہیں آگاہ اور یہ خدا کا قانون ہے کہ وہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وساطت سے ہی امور طلب کی اطلاع دیا کرتا ہے ، اس سے مقصود پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اہمیت محسوس کرانا ہے کہ اس کا وجود مسعود کتنا باعث برکت وسعادت ہے اس آیت میں چند نکات قابل غور ہیں : ۔ ١۔ یہ کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بجائے خود محبت ودلیل ہے ، اس کی وساطت تشریحات امور غیبیہ کے لئے از بس ضروری ہے ، اس کا ہر قول اور ہر فعل شریعت وقانون ہے جس سے بےنیازی الحاد ہے ۔ ٢۔ یہ کہ نبوت اجتباء الہی کا ثمرہ و نتیجہ ہے ‘ کسب واجتہاد کا نہیں ۔ ٣۔ یہ کہ بجز رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ” اطلاع علی الغیب “ یقینی وحتمی طور پر اور کسی کے لئے نہ ماننا چاہئے ۔ (آیت) ” فامنوا باللہ ورسلہ “ میں عام دعوت ایمان ہے ، رسل کو بصیغہ جمع رکھنے میں مصلحت یہ پیش نظر ہے کہ اسلام انبیاء علیہم السلام میں تفریق کو پسند نہیں کرتا ، وہ بیک وقت اسلام اور تمام انبیاء علیہم السلام پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے ، اس کے نزدیک ایک سچے نبی کا انکار تمام انبیاء علیہم السلام کا انکار ہے ، فاضل رازی کہتے ہیں ” فمن اقربنبوۃ واحد منھم لزمۃ الاقرار بنبوۃ الکل “۔ بعض فریب خوردہ جہلا نے یہ سمجھا ہے کہ شاید حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد آنے والے انبیاء علیہم السلام کی طرف اشارہ ہے ، یہ بھی فرقان حمید کے نظام عقائد کے خلاف ہے ، قرآن حکیم میں واضح طور پر نبوت کے دروازوں کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد ہمیشہ کے لئے مسدود کردیا گیا ہے ۔ ” الغیب “ کے معنی قرآن کی اصطلاح میں امور شرعیہ ہیں جو عام انسان اپنی عقل وتدبر سے نہیں جان سکتے ، مطلقا امور کون مراد نہیں کیونکہ ان کا علم بجز خدا کے کسی کو حاصل نہیں ۔ (آیت) ” ولا یعلم الغیب الا ھوہ “۔ حل لغات : نملی : مصدر املاء ڈھیل دینا ۔ الخبیث : ناپاک ۔