إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ
بلاشبہ پرہیزگار (اس دن) باغوں اور چشموں میں ہوں گے
مساوات اور مقام احسان ف 1: جو لوگ بہشتوں اور چشموں کے مستحق ہوں گے ۔ ان میں احسان کی استعداد ہوگی ۔ یعنی جہاں تک مخلوق الٰہی کا تعلق ہے ۔ ان کا رویہ نہایت مشفقانہ ہوگا ۔ بنی نوع انسان کے ساتھ انکو بدرجہ غایت حمیت ہوگی ۔ وہ اپنی زندگی کے اکثر لمحات کو دوسروں کی ہمدری میں صرف کرینگے ۔ اور اللہ کے ساتھ ان کی وابستگی کا یہ عالم ہوگا ۔ کہ بہت کم راتوں کو سوئیں گے ۔ بستر پر بےقرار اور بےچین رہیں گے ۔ اٹھیں گے اور آقا کے دربار میں کھڑے ہوجائیں گے ۔ اور اپنی کوتاہیوں اور لغزشوں کی معانی مانگیں گے ۔ ان کی روح اللہ کی حمدوستائیش میں مصروف ہوگی ۔ اور ان کا جسم خلق اللہ کی فلاح وبہبود کے لئے وقف ہوگا ۔ دولت ومال کو حاصل کریں گے ۔ مگر اس کو صحیح طور پر خرچ کردینے میں ان کو قطعاً تامل نہ ہوگا ۔ وہ یہ سمجھیں گے ۔ کہ اس مال ودولت میں ہر حاجت مند کا حصہ ہے ۔ ہم کو یہ بالکل استحقاق حاصل نہیں ۔ کہ ہم تو اپنے تمول سے آسائش اور آسودگی کی تمام صورتوں کا احاطہ کرلیں ۔ اور ہیئت اجتماعیہ کا بڑا حصہ ادنیٰ حاجات زندگی کا محتاج ہو ۔ غور فرمائیے ۔ اس مقام اتقاء میں اور اس مساوات میں جو سو شلزم پیدا کرتا ہے ۔ کتنا بڑا فرق ہے *۔ آپ جس کو مساوات کہتے ہیں ۔ قرآن اس ہمدردی کے جذبہ کو احسان کے ساتھ تعبیر کرتا ہے ۔ جو معناً مساوات سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔ کیونکہ احسان کے معنے یہ ہیں ۔ کہ اپنے ابنائے جنس کے ساتھ واجبات سے کچھ زیادہ سلوک روا رکھا جائے ۔ اور یہ محض پیٹ کے لئے نہ ہو ۔ اور اوزل ترین خواہشات کی بناء پر نہ ہو ۔ بلکہ اس لئے ہو کہ اس آقا سے تعلقات عقیدت وابستہ ہیں ۔ جو ساری کائنات کا یکساں پروردگارہے ۔ اور اس ارادت کا یہ تقاضا ہے ۔ کہ ہر سائل حاجت مند کی اس طرح اعانت کی جائے ۔ گویا وہ پہلے سے ہمارے اموال میں استفادہ کا حق رکھتا ہے ۔ اس نقطہ نظر کی وسعتیں اور پاکیزگی ملاحصہ ہو ۔ اور اس زایوہ نگاہ کی مادیت اور سطحیت دیکھئے ۔ جس کا تعلق محض خواہشات نفس سے ہے *۔ حل لغات :۔ یھجعون ۔ شب بسر کرنا ۔ سونا *۔ حل لغات :۔ بعجل ۔ بچھڑا * معمین ۔ فربہ *۔