إِنَّمَا تُوعَدُونَ لَصَادِقٌ
کہ جس بات کا تم سے وعدہ کیا جاتا [٣] ہے وہ سچا ہے۔
(ف 1) قرآن حکیم نے کئی سورتوں کو قسمیہ الفاظ سے شروع کیا ہے جس کے متعلق عام طور پر یہ دو خیال ہیں :۔ ایک تو یہ کہ اس وقت کے اس وقت کے مخالفین جب حضور (ﷺ) کی قوت استدلال سے متاثر ہوئے تھے تو کہتے تھے کہ ہم یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ آپ نے زور خطابت سے ہم کو قائل کرلیا ہے مگر ہم یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں کہ آپ کے پاس فی الواقع صداقت بھی موجود ہے ان کو تسلی اور اطمینان خاطر کے لئے یہ انداز بیان اختیار کیا گیا ہے کہ جو کچھ کہا گیا ہے وہ حلفاً حرف بہ حرف درست ہے اور اس میں کسی قسم کا شک وشبہ نہیں ہے ۔ دوسرے یہ کہ جن چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے وہ منفعت کے اعتبار سے اس قابل ہیں کہ ان کے متعلق غوروفکر کیا جائے اور ان سے اللہ تعالیٰ کے احسانات پر استدلال کیا جائے ۔ پہلی توجیہہ بالکل غلط ہے اس لئے کہ جہاں تک اللہ تعالیٰ کی ذات کا تعلق ہے اس کو قطعاً اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ ایسے انداز بیان کو اختیار کرے جس کو بحالت مجبوری انسان اس وقت اختیار کرتا ہے جب کوئی اور چارہ کار باقی نہیں رہتا ۔ اللہ تعالیٰ کے پاس سمجھانے کے بےشمار ذرائع اور وسائل موجود ہیں وہ ان سے کام لے سکتا ہے ۔ نیز اس توجیہہ کے ماننے میں سب سے بڑی دشواری یہ حائل ہے کہ جن چیزوں کی قسمیں کھائی گئی ہیں وہ اپنے اندر کوئی جلالت قدر نہیں رکھتیں اور بااعتبار مرتبہ کے وہ بہرآئینہ اللہ سے فروتر ہیں ۔ حالانکہ قسم کھانے کے لئے مقسم بہ کا معزز ومحترم ہونا ضروری ہے ۔ دوسری توجیہہ کچھ ایسی غلط نہیں ہے مگر مشکل یہ ہے کہ کسی چیز کی منفعت کو بیان کرنے کے لئے عرب اس اسلوب بیان کو اختیار نہیں کرتے ۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ ایک نوع کے دلائل ہیں جن کو دعویٰ کے اثبات اور موثق بنانے کے لئے پیش کیا گیا ہے ۔ مثلاً دعویٰ یہ ہے کہ قیامت بالکل حق اور یقینی ہے ۔ اور قرین عقل ودانش ہے اس کو یوں ثابت فرمایا ہے کہ تمہیں اس ضمن میں سب سے بڑی قابل اعتراض چیز یہی نظر آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح عناصر حیات کو جمع کرے گا جو کائنات میں منتشر ہیں ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح مختلف ہواؤں کو اس لائق بنادیتا ہے کہ وہ قطرات آب کو دوش پر لادے لادے پھریں اور پھر ان کو بارش کی شکل میں مختلف مقامات پر تقسیم کردیں۔ جس طرح یہ ممکن ہے اسی طرح یہ بھی ممکن ہے ۔