الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ
یہ وہ لوگ ہیں کہ جب لوگوں نے ان سے کہا کہ'': لوگوں نے تمہارے مقابلے کو ایک بڑا لشکر جمع کرلیا ہے لہٰذا ان سے بچ جاؤ'' تو ان کا ایمان اور بھی زیادہ [١٧١] ہوگیا اور کہنے لگے'': ہمیں تو اللہ ہی کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے
مجاہدین کا نعرہ مستانہ : (ف3) بدر صغری کا واقعہ ہے ، ابو سفیان نے جب محسوس کیا کہ حسب وعدہ مسلمان مقام جنگ تک پہنچ جائیں گے تو اس نے نعیم کو بھیجا تاکہ مدینہ میں جا کر مسلمانوں کو مرغوب کرے ، اس نے آکر کہا ، مسلمانو ! تم کیا غضب کر رہے ہو ، ابو سفیان پوری تیاری کے ساتھ آرہا ہے ، مدینہ سے باہر قدم رکھا تو یاد رکھو ایک بھی تم میں سے بچ کر نہیں آ سکے گا ، اگر مسلمان مجاہدانہ نکلے اور سالم وفائم واپس مدینہ لوٹے اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں کہ فوج کی کثرت ‘ سازوسامان کی چمک دمک مسلمان کے لئے مرعوب کن نہیں ہو سکتی ، اس سے تو اس کے دل میں اور قوت وتوانائی پیدا ہوجاتی ہے ، اور وہ ﴿حَسْبُنَا اللَّهُ﴾ کا نعرہ مستانہ لگا کر میدان جنگ میں کود پڑتا ہے ۔ حل لغات : حَسْبُنَا: ہمیں بس ہے ۔ ہمارے لئے کافی ہے ۔