ق ۚ وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ
ق۔ قسم ہے اس قرآن کی جو بڑی شان [١] والا ہے۔
سورۃ ق فرمایا : کہ قرآن کی لفظی ومعنوی بزرگی اور عظمت خود قرآن پر وال ہے ۔ اور جس شخص نے اس صحیفہ مقدس کا بغور مطالعہ کیا ہے ۔ وہ اس کے محاسن سے متاثر ہو کر مجبور ہوجاتا ہے ۔ کہ اس کی سچائی پر گواہی دے اور یہ کہہ دے ۔ کہ اتنی بڑی کتاب ۔ اتنا مکمل زندگی کا پروگرام ، اور اتنے خوارق علمیہ کا حامل مجموعہ ناممکن ہے ۔ کہ انسانی دماغ کی اختراع وایجاد قرار دیا جاسکے ۔ مگر ان مکے کے ناسمجھ لوگوں کو اس کتاب ہدیٰ کی رفعتوں کا اندازہ نہیں ہوتا ۔ انہیں اس بات پر تعجب ہوتا ہے کہ ان میں کا ایک آدمی کیونکر منصب نبوت پر فائز ہوسکتا ہے ۔ ان کے نزدیک پیغمبر کے لئے ضروری ہے ۔ کہ وہ فوق البشر شخصیت ہو ۔ پھر انہیں تعلیمات کا یہ بڑا حصہ عجیب وغریب معلوم ہوتا ہے ۔ کہ جب ہم مر کر مٹی ہوجائیں گے ۔ تو کیونکر اٹھ کر اللہ کے سامنے پیش کئے جائیں گے ۔ یہ لوگ کہتے ہیں ۔ کہ حشر اجساد کا یہ عقیدہ بالکل دوراز قیاس ہے ۔ اور عقل اس کو ہرگز تسلیم نہیں کرتی * اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ اس میں استحالہ اور اشکال کیا ہے ۔ ہم جانتے ہیں ، زندگی کے عناصر کہاں کہاں ہیں ۔ اور کن کن اشکال وصورت میں پنہاں ہیں ۔ ہمارے پاس معلومات کا کامل دفتر موجود ہے ۔ اس لئے ان حالات میں نشاۃ ثانیہ کچھ بھی دشوار نہیں ۔ اصل بات یہ ہے ۔ کہ ان لوگوں کو چونکہ اسلامی تعلیمات پر اعتماد نہیں ہے ۔ اور حق وصداقت کو ٹھکراتے ہیں ۔ اس لئے یہ باتیں ان کی سمجھ میں نہیں آتیں ۔ ورنہ یہ بالکل سادہ اور قریب فہم مسئلہ ہے ۔ کہ جب اللہ کا علم کامل ہے اور وہ زندگی کا پیدا کرنے والا ہے ۔ اور بغیر ذرائع وسائل کے ہزار ہا عوام کو بیک جنبش امادہ معرض ظہور میں لے آنے والا ہے ۔ اور اس کو معلوم ہے ۔ کہ زندگی کا عطر کس کس پتی اور گل بوٹے سے کھینچتا ہے ۔ تو پھر دوبارہ پیدا کردینے میں کیا دقت ہے ؟ حل لغات :۔ والقرآن المجید ۔ یعنی قرآن کی بزرگی بطور استدلال اور استشہاد کے بیش ہے * رجع بعید ۔ دوبارہ زندہ ہونا بہت ہی بعید ہے *۔