سورة الفتح - آیت 17

لَّيْسَ عَلَى الْأَعْمَىٰ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ ۗ وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ وَمَن يَتَوَلَّ يُعَذِّبْهُ عَذَابًا أَلِيمًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

کوئی اندھا یا لنگڑا یا بیمار [٢٢] اگر جہاد میں شامل نہ ہو تو اس پر کوئی تنگی نہیں اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مان لے، اللہ اسے ایسے باغوں [٢٣] میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گے اور جو سرتابی کرے اللہ اسے دردناک عذاب دے گا۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

جہاد کب تک جاری رہے گا ؟ ف 1: جہاد اسلامی زندگی میں بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔ یہ اس وقت تک جاری رہیگا ۔ جس وقت تک کہ دنیا میں کفر موجود ہے ۔ اور کفر کے ساتھ آویزش ہے ۔ جب تک تاریکی اور ظلمت کا دور دورہ ہے ۔ جب تک مظالم کی حکومت ہے ۔ جب تک جبرواستبداد انسانوں میں تحقیر ومنافرت کے جذبات پیدا کرتا ہے ۔ جب تک کہ ہیئت اجتماعیہ کو آزادی اور استقلال کی نعمتیں میسر نہیں ۔ جب تک کہ غلامی اور بندگی موجود ہے ۔ جب تک کہ انسان انسانوں پر ظلم وجور سے حکومت کرتے ہیں ۔ جب تک کہ زمین پر ذرہ بھر بھی ناانصافی موجود ہے ۔ جہاد کے معنے ایسی مساعی کو جاری رکھنے کے ہیں جن کی وجہ سے ظالم کا سر کچلاجائے ۔ سزاعنہ کے کبروغرور کو توڑا جائے ۔ اور جس سے مالکوں وسرمایہ داروں کی چیزہ دستیوں کا سدبات کیا جائے ۔ جہاد اس وقت تک انسان پر فرض ہے جب تک کہ عالم میں سعادت وبرکت کا نزول نہیں ہوتا ۔ جب تک کہ توحید وعدل کی حکومت قائم نہیں ہوتی ۔ اور جب تک کفروشرک کو ذرہ بھر بھی اختیارات حاصل ہیں ۔ جہاد سے غرض یہ ہے کہ اس عالم فسق وفجور میں توازن واعتدال پیدا کیا جائے ۔ اور تمام انسانوں میں اس جذبہ کی تخلیق کی جائے ۔ کہ وہ حق وصداقت کا احترام کرنے لگیں ۔ اور وحدت وتعاون کے مرکز پر مجتمع ہوجائیں ۔ اس آیت میں بتایا ہے ۔ کہ اس عبادت سے سوائے ان لوگوں کے جونی الواقع معذور اور جن کی شرکت سے مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ۔ اور کوئی مستثنیٰ نہیں ۔ اندھے معذور ہیں ۔ لنگڑے معذور ہیں ۔ اور بیمار معذور ہیں ۔ مگ ران کے لئے بھی ہے ۔ کہ یہ دوسرے امور میں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بہر طوراطاعت کریں ۔ اور اپنی جنت کو حاصل کرنے کی کوشش کریں *۔