سورة الفتح - آیت 15

سَيَقُولُ الْمُخَلَّفُونَ إِذَا انطَلَقْتُمْ إِلَىٰ مَغَانِمَ لِتَأْخُذُوهَا ذَرُونَا نَتَّبِعْكُمْ ۖ يُرِيدُونَ أَن يُبَدِّلُوا كَلَامَ اللَّهِ ۚ قُل لَّن تَتَّبِعُونَا كَذَٰلِكُمْ قَالَ اللَّهُ مِن قَبْلُ ۖ فَسَيَقُولُونَ بَلْ تَحْسُدُونَنَا ۚ بَلْ كَانُوا لَا يَفْقَهُونَ إِلَّا قَلِيلًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

جب تم غنیمتیں حاصل کرنے کے لئے جانے لگو گے تو جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے فوراً کہیں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ [١٧] چلنے دو۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کے حکم کو بدل [١٨] دیں۔ آپ ان سے کہئے : تم ہرگز ہمارے ساتھ [١٩] نہ جاؤ گے (کیونکہ) اللہ پہلے ہی ایسی بات فرما چکا ہے۔ پھر وہ کہیں گے (یہ بات نہیں) ’’بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو‘‘ ( یہ بات بھی نہیں) مگر یہ لوگ [٢٠] حقیقت کو کم ہی سمجھتے ہیں

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

فتح خبیر کی خوشخبری ف 1: ان آیات میں منافقین کا ذکر ہے ۔ کہ یہ لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تو گئے نہیں ۔ مگر جب آپ حدیبیہ سے لوٹے اور راستے میں یہ سورت نازل ہوئی ۔ اور اس میں ان کو خوب ذلیل کیا گیا ۔ اور آپ نے اپنے ساتھیوں کو فتح خیبر کی خوشخبری سنائی ۔ تو کچھ رسوائی کو مٹانے کی غرض سے اور کچھ مغانم کے حصول کے لئے ان کے دلوں میں شرکت جہاد کی خواہش پیدا ہوئی ۔ اور انہوں نے چاہا ۔ کہ یہ بھی اس میں آپ کے ساتھ دیں ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ کہ کیا یہ لوگ کلام الٰہی کو بدلنا چاہتے ہیں ۔ یہ تو پہلے ہی قرار پاچکا ہے ۔ کہ اس جنگ میں صرف وہی لوگ جاسکیں گے ۔ جو حدیبیہ کے سفر میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے ۔ اس لئے ان کے لئے شرکت جہاد کا کوئی موقع ہی نہیں ۔ ہاں اگر ایسا ہی شوق ہے ۔ تو اس وقت تک انتظار کرو ۔ جب تک ایک زبردست قوم کا سامنا ہو ۔ اس وقت اگر تم گرمجوشی کے ساتھ لڑے ۔ اور داد شجاعت دی ۔ تو پھر اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کو معاف کردیگا ۔ اور تم کو بہت بڑے اجر سے نوازے گا ۔ حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے ۔ کہ یہ موعودہ جنگ وہ تھی ۔ جو حضرت عمر کے زمانہ میں عجمیوں سے ہوئی *۔ حل لغات :۔ المخلفون ۔ جہاد سے پیچھے رہ جانے والے ۔ مغانم ۔ جمع ختم بمعنی غنیمت مال جو جنگ میں کفار سے حاصل کیا جائے *۔