وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ نَافَقُوا ۚ وَقِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوِ ادْفَعُوا ۖ قَالُوا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّاتَّبَعْنَاكُمْ ۗ هُمْ لِلْكُفْرِ يَوْمَئِذٍ أَقْرَبُ مِنْهُمْ لِلْإِيمَانِ ۚ يَقُولُونَ بِأَفْوَاهِهِم مَّا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ ۗ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يَكْتُمُونَ
اور منافقوں کو بھی۔[١٦٣] اور جب ان سے کہا گیا کہ'': اللہ کی راہ میں جہاد کرو یا (کم از کم شہر مدینہ کا) دفاع [١٦٤] ہی کرو'' تو کہنے لگے : اگر ہم لڑنا جانتے ہوتے تو ضرور تمہاری [١٦٥] پیروی کرتے۔ اس روز وہ ایمان کی نسبت کفر سے زیادہ قریب تھے۔ وہ اپنی زبانوں سے [١٦٦] ایسی باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتیں۔ حالانکہ جو کچھ وہ [١٦٧] چھپاتے ہیں اللہ انہیں خوب جانتا ہے
(ف2) اس آیت میں ترک جہاد کو کفر سے تعبیر کیا ہے ، یعنی وہ لوگ جو وقت آنے پر حیل وتدابیر تراشتے رہتے ہیں ‘ ان کی دوں ہمتی انہیں میدان جہاد میں نکلنے نہیں دیتی ، انہیں اپنے ایمان کی تجدید کرنا چاہئے ، مسلمان روز ازل سے توحید کا اقرار کرچکا ہے ، اس کے لئے ناممکن ہے کہ ایک لمحہ بھی کفر سے موالات رکھے ، کم از کم اس کے دل میں ضرور کفر واستبداد کے خلاف جذبات نفرت وحقارت موجزن رہتے ہیں اور اگر یہ بھی نہیں تو قرآن حمید کی یہ ڈانٹ سن رکھیں ﴿هُمْ لِلْكُفْرِ يَوْمَئِذٍ أَقْرَبُ مِنْهُمْ لِلْإِيمَانِ﴾یعنی اس دن وہ لوگ ایمان کی نسبت کفر کے زیادہ قریب تھے ۔