سورة محمد - آیت 18

فَهَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ أَن تَأْتِيَهُم بَغْتَةً ۖ فَقَدْ جَاءَ أَشْرَاطُهَا ۚ فَأَنَّىٰ لَهُمْ إِذَا جَاءَتْهُمْ ذِكْرَاهُمْ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

کیا اب یہ لوگ بس قیامت کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ یکدم ان پر آپڑے؟ اس کی نشانیاں [٢١] تو آچکی ہیں جب قیامت آجائے گی تو پھر ان کے لئے نصیحت قبول کرنے کا کون سا موقع باقی رہ جائے گا۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اللہ کا قانون ف 1: رشدوہدایت اور ضلالت وگمراہی کے متعلق اس کا قانون یہ ہے ۔ کہ وہ کسی شخص کے اعمال میں مداخلت نہیں کرتا ۔ اور کسی شخص کو مجبور نہیں کرتا ۔ کہ وہ اپنے لئے ان دوراہوں میں سے کسی ایک راہ کو ضرور اختیار کرے ۔ اس کا کام صرف یہ ہے ۔ کہ وہ حقیقت حال سے آگاہ کردے ۔ پیغمبروں کے بھیجے ۔ اور کتابوں کو نازل کرے ۔ تاکہ انسان عقل وبصیرت کی روشنی میں اپنا نصیب العین تجویز کرے ۔ اور پھر سمجھ سوچ کر کسی پک ڈنڈی پر ہولے ۔ جب یہ ہوتا ہے کہ کوئش شخص عمداً خواہشات کی پیروی کے جنون میں حق وصداقت کی آواز کو نہ سننا چاہے ۔ اور آفتاب کی طرح روشن حقائق کو ٹھکرا دے ۔ تو پھر وہ اس سے توفیق ہدایت کو چھین لینا ہے ۔ اس کے معنے یہ ہوتے ہیں ۔ کہ وہ بدبختی اور محرومی میں اس منزل تک پہنچ گیا ہے جہاں اب حصول ہدایت کے لئے کوئی موقع باقی نہیں رہا ۔ اور جب کوئی اللہ کا بندہ قبولیت وپذیرائی کے لئے آگے بڑھتا ہے ۔ اور یہ معلوم کرنا چاہتا ہے ۔ کہ حق وباطل میں کون راہ منزل مقصود تک لے جانے والی ہے ۔ تو پھ روہ اس کی اعانت کرتا ہے ۔ اور اس کے لئے ہدایت کی راہوں کو روخن اور واضح کردیتا ہے ۔ جس کی وجہ سے یہ محسوس کرتا ہے کہ میرے ساتھ اللہ کی امداد ہے اور میں اس کی ہمدردیوں سے بدرجہ غایت بہرہ مند ہوں *۔