سورة محمد - آیت 12

إِنَّ اللَّهَ يُدْخِلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يَتَمَتَّعُونَ وَيَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًى لَّهُمْ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے اللہ یقینا انہیں ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن میں نہریں بہ رہی ہیں اور جو کافر ہیں وہ چند روز فائدہ اٹھا لیں، وہ اس طرح کھاتے ہیں جیسے چوپائے [١٣] کھاتے ہیں اور ان کا ٹھکانا دوزخ ہے۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

مردِ مومن کے رجحانات (ف 1) مومن اور کافر کی توجہات فکر میں یہ فرق ہے کہ مومن کے سامنے صرف حقیر اور ناچیز دنیا نہیں ہوتی اس کی نگاہ بلند ہوتی ہے ۔ جس سے عقبیٰ کی رفعتیں دیکھتا ہے ۔ مگر کافر صرف دنیا تک اپنی تگ دو کو محدود رکھتا ہے ۔ مومن جہاں جسم کی بالیدگی کا خواہاں ہوتا ہے وہاں روح کی تازگی اور بشاشت بھی چاہتا ہے ۔ کافر کی توجہ صرف پیٹ اور اس کے مقتضیات کی طرف لگی رہتی ہے ۔ مومن اس لئے کھاتا پیتا اور مخلوط دنیا سے استفادہ کرتا ہے کہ آخرت کے لئے اپنے میں قوت ونشاط پاسکے ۔ اور کافروں کے لئے ان دنیا کی نعمتوں سے بہرہ اندوز ہوتا ہے کہ اپنے جذبات شہوت وحرص کی تسکین کرسکے ۔ زیادہ فصیح الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے گا کہ مومن کے سامنے زندگی کا ایک مقصد اور نصب العین ہوتا ہے ۔ اور کافر بالکل حیوانات کی طرح زندگی بسر کرتا ہے ۔ اس کے سامنے کوئی اخلاقی اور روحانی نصب العین نہیں ہوتا ۔ پھر چونکہ دونوں میں غرض ومقصد کا بین تفاوت ہے اس لئے ضروری ہے کہ مقام ومرتبہ کے لحاظ سے بھی دونوں میں فرق ہو ۔ چنانچہ جس کی خواہشات دنیا میں بالکل ارزاں ترین جذبات کی تکمیل تک محدود ہیں جہنم میں جائے گا ،اور اس کا مادہ جسم آتش دوزخ کے اندر ہوگا ۔ جس کی پرورش کے لئے اس نے اپنی عمر کا کثیر ترین حصہ ضائع کیا تھا۔