وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَآمَنُوا بِمَا نُزِّلَ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَهُوَ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۙ كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بَالَهُمْ
اور جو لوگ ایمان [٢۔ الف] لائے اور نیک عمل کئے اور جو کچھ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا ہے اس پر ایمان لائے، اور وہی ان کے پروردگار کی طرف سے حق ہے، اللہ نے ان کی برائیاں دور کردیں [٣] اور ان کا حال درست کردیا
سورۃ محمد ف 1: اس سورۃ کا آغاز کو سورۃ احقاف کے آخری مضمون کے ساتھ ایک باریک تعلق ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ اختتام سورت کے موقعہ پر فرمایا تھا کہ جو لوگ فسق وفجور کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ اور اللہ کے قوانین رشدوہدیات کو نہیں مانتے ۔ وہ ہلاک ہوں گے ۔ ظاہر ہے کہ اس حقیقت کے اظہار کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا تھا ۔ کہ آخر یہ لوگ کچھ نیک کام بھی تو کرتے ہوں گے ۔ پھر کیونکر قرین عدل وانصاف ہے کہ ان کو ایک دم ہلاکت وموت کے گھاٹ اتار دیا جائے ۔ جواب یہ ہے کہ یہ لوگ بحیثیت نظام کے اسلام کو تسلیم نہیں کرتے اور اس طرح خیروبرکت کی اشاعت میں زبردست رکاوٹ ثابت ہوتے ہیں ۔ اس لئے ان کے اعمال مقبول نہیں ہیں ۔ کیونکہ اعمال کی قبولیت کے لئے سب سے ذہنیت کا درست ہونا ضروری ہے اور لازم ہے ۔ کہ ان کے تحریکات نیک اور بلند ہوں ۔ چونکہ یہ بات کفر وانکار کی حالت میں ممکن ہی ہیں ۔ اس لئے اعمال کا ضائع ہونا ناگریز اور طبعی ہے *۔ یعنی جہاں حسن عمل کے لئے یہ زیبا ہے ۔ کہ اس لقمن میں تمام غیر اللہ کی شخصیتوں کا انکار کردیا جائے وہاں ایک شخصیت ایسی ہے ۔ جس کا ماننا جس سے محبت رکھنا ، اور جس کی اطاعت کرنا راہ نجات ہے اور وہ شخصیت ہے جناب محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) *۔ حل لغات :۔ علی محمد ۔ ہوسکتا ہے اس تصریح سے اس طرف بھی اشارہ ہو ۔ کہ قرآن اس شخص پر اور اس آیت پر نازل ہوا ہے ۔ جو کائنات میں سب سے بہتر اور سب سے اعلی ہے *۔ الرقاب ۔ گردنیں ۔ اتختمو تدر اسحان سے ہے ۔ جس کے معنے خوب خونریزی کے ہیں ۔ منا ۔ احسان کرکے ۔ نداء ۔ زر فدیہ لے کر معاوضہ لے کر *۔