سورة آل عمران - آیت 164

لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر بہت بڑا احسان [١٥٨۔ ١] کیا ہے کہ ان کے درمیان [١٥٩] انہی میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا جو ان پر اللہ کی آیات پڑھتا، ان (کی زندگیوں) کو سنوارتا اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم [١٦٠] دیتا ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

نوع انسانی کا سب سے بڑا محسن : (ف ٢) اس آیت میں اللہ نے اس احسان عظیم کی طرف مسلمانوں کو متوجہ کیا ہے جس کی وجہ سے انہیں نے کونین کی لذتوں کو حاصل کیا ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد سے پہلے مطلع عالم پر جہل وجمود کے تاریک بادل چھا رہے تھے ، دنیا اخلاقی برائیوں کی انتہا کو پہنچ چکی تھی ، قتل وغارت گری کا بازار گرم تھا ، ایران سے لے کر روم تک انسانیت کا کہیں نام ونشان نہ تھا ، ہندوستان جو حکمت و دانائی کے لئے ہمیشہ سے مشہور ہے ‘ اس وقت عقیم ہوچکا تھا ۔ زبردست زیردستوں کا خون چوس رہے تھے اور زیر دست نہایت انکسار کے ساتھ زندگی کے دن گزار رہے تھے ، علم کا آفتاب غروب ہوچکا تھا ، سارے عرب میں چند لوگ تھے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے ، باقی جزیرہ جہل ونادانی کے اتھاہ سمندر میں غرق تھا ، ان حالات میں دنیا کا ہر ذرہ ایک آفتاب ہدایت کا منتظر تھا ، جو آئے اور دنیا والوں کو ثور وعرفان سیمجلی کو دے ، چنانچہ وہ آیا ، فاران کی چوٹیوں سے طلوع ہوا رات کو ظلمت دن کی تابندگی سے بدل گئی ، خلاق واصلاح کا غوغا بلند ہوا ، امن وصلح عام کی طرح ڈالی گئی اور ایک دفعہ پھر انسانیت کو معراج کمال پر پہنچا دیا گیا ، ساری دنیا حکمت ومعرفت کے نشے میں چور ہوگئی ، زیردست زبردست ہوگئے اور قلم کا پرچم نہایت شان سے لہرانے لگا ، یہ کیوں ہوا ؟ اس لئے جو رسول آیا ‘ وہ کامل تھا ، جہاں اس نے اللہ کی آیات کے تفصیل وتوضیح کی ‘ وہاں تزکیہ وتطہیر سے بھی کام لیا ، جہاں دماغوں کو روشنی بخشی وہاں دلوں کی دنیا کو بھی جلوؤں سے معمور کردیا ۔ حل لغات : من : احسان کیا ۔