قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِن كَانَ مِنْ عِندِ اللَّهِ وَكَفَرْتُم بِهِ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَىٰ مِثْلِهِ فَآمَنَ وَاسْتَكْبَرْتُمْ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
آپ ان سے کہئے : بھلا دیکھو، اگر یہ (قرآن) اللہ ہی کی طرف سے ہو اور تم نے اس کا انکار کردیا اور بنی اسرائیل میں سے ایک گواہ نے ایسی ہی گواہی بھی دے دی [١٤] چنانچہ وہ تو ایمان لے آیا اور تم اکڑ بیٹھے؟ (تو تمہارا کیا انجام ہوگا ؟) بلاشبہ اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔
پیغمبر بشر ہوتا ہے قرآن میں یہ خوبی ہے ۔ کہ اس نے نبوت کے مفہوم پر کوئی غبار نہیں رہنے دیا ۔ صاف صاف اس حقیقت کا اظہار کردیا ہے ۔ کہ پیغمبر باوجود جلالت قدر کے ایک انسان ہوتا ہے اور اس میں وہی بشری لوازم ہوتے ہیں جن کا ہونا انسان میں ضروری ہے ۔ مکہ والے اس بناء پر کہ پیغمبر فوق البشر ہونا چاہیے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بعض مخصوص معجزات کا مطالبہ کرتے تھے ۔ اور یہ کہتے تھے ۔ کہ آپ ہم کو چند غیب کی باتوں سے اطلاع دیں ۔ اس آیت میں اس چیز کو واضح کیا ہے ۔ کہ حضور کینبوت میں کوئی ندرت اور انوکھا پن نہیں ہے ۔ آپ بھی اس قسم کے پیغمبر ہیں ۔ جس طرح کہ پہلے انبیاء گزر چکے ہیں ۔ جس طرح وہ محض وحی اور الہام کے تابع تھے ۔ اس طرح آپ بھی پابند ہیں ۔ اپنی جانب سے کسی خرق عادت پر قادر نہیں ۔ اور نہ بغیر اللہ کے آگاہ کرنے کے کسی غیب کی بات سے مطلع ہوسکتے ہیں ۔ یہاں تک کہ آپ باوجود قرآن ایسے عظیم الشان غیب کے حالم ہونیکے یہ نہیں جانتے کہ مستقبل میں کیا ظہور پذیر ہونے والا ہے *۔