سورة الجاثية - آیت 23

أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَٰهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَىٰ عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَىٰ سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَىٰ بَصَرِهِ غِشَاوَةً فَمَن يَهْدِيهِ مِن بَعْدِ اللَّهِ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

بھلا آپ نے اس شخص کے حال پر بھی غور کیا جس نے اپنی خواہش نفس کو الٰہ [٣٣] بنا رکھا ہے اور اللہ نے علم کے باوجود [٣٤] اسے گمراہ کردیا اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا ؟ اللہ کے بعد اب کون ہے جو اسے ہدایت دے سکے؟ کیا تم غور نہیں کرتے؟

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

خطرناک روگ ف 1: روحانی طور پر سب سے بڑا مرض اور سب سے زیادہ خطرناک بیماری احجاب نفس اور غرور ہے ۔ جس کی وجہ سے انسان اللہ کے احکام کو بھی عزت واحترام کی نگاہوں سے نہیں دیکھتا ۔ اور یہ سمجھتا ہے کہ میرا محدود دماغ اس قابل ہے ۔ کہ تمام مصالح وحکم کا بیک وقت احاطہ کرسکے ۔ ازیس کہ مجھ کو کسی دوسرے کی اطاعت کی قطعاً ضرورت نہیں ۔ میں خود دانا اور سمجھ دارہوں ۔ معاملات میں بصیرت نامہ رکھتا ہوں ۔ اور خیر وشر میں جو فرق ہے ۔ اس کو بخوبی محسوس کرتا ہوں ۔ اس لئے مذہب اور دین اگر میرے عدیے کے موافق ہے ۔ تو درست ہے ۔ اور اگر میرے عندیے میں بعد اس میں موافق نہیں ہے ۔ تو پھر وہ درست نہیں ۔ کیونکہ میرے افکار وتصورات میں قطیت وحتمیت کی پوری استعداد موجود ہے ۔ ان میں کسی غلطی کا امکان نہیں ۔ مکے والوں کی بالکل یہی ذہنیت تھی ۔ اور اسی روحانی روگ میں مبتلا تھے ۔ کہ ہمارے مزخرافات دینی سی قرین عقل ودانش ہیں ۔ اپنی خواہشات اور خیالات کو انہوں نے خدا سمجھ رکھا تھا ۔ اور ان کا احترام اسی طرح کرتے تھے ۔ جس طرح خدا کے احکام کا احترام کیا جاتا ہے ۔ اس لئے فرمایا ۔ کہ یہ لوگ باوجود جاننے اور علم رکھنے کے بھی گمراہ ہیں ۔ کیونکہ از راہ کبروغرور یہ حق کی آواز کو سننے کے لئے تیارہی نہیں ۔ اور نہ اسکے لئے آمادہ ہیں ۔ کہ اگر کچھ سن پائیں ۔ تو اس کو دل میں جگہ دیں ۔ یہ عمداً آنکھیں بند کرلیتے ہیں ۔ تاکہ واقعات اور حالات کی زندہ شہادت اور گواہی ان کو ایمان وایقان پر مجبور نہ کردے ۔ اور جب مرض اس منزل پر پہنچ جائے ۔ اور اللہ تعالیٰ توفیق ہدایت چھین لے ۔ تو پھر صحت کا حصول مشکل ہوجاتا ہے *۔