لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ رَبُّكُمْ وَرَبُّ آبَائِكُمُ الْأَوَّلِينَ
اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے، وہ تمہارا بھی پروردگار ہے اور تمہارے پہلے آباء و اجداد [٦] کا بھی
ف 1: قرآن کا استدالال توحید کے متعلق یوں ہے کہ وہ خدا جو احیاواماتت پر قادر ہے ۔ جو زندگی کو موت سے بدل سکتا ہے ، اور موت کو زندگی کا لباس پہنا دیتا ہے ۔ وہی عبادت اور پرستش کے لائق ہے اور اسی کو تمہارے آباء علم پوجتے تھے ۔ آج تم کو جو اس کی ذات کے متعلق شکوک وشبہات ہیں ۔ تو وہ محض جہالت پر مبنی ہیں ۔ ورنہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے (جس کا) انکار ممکن ہی نہیں *۔ مادہ پرستوں کے پاس اس عقدہ کا جواب کوئی نہ تھا ۔ کہ عام میں زندگی کہاں سے آئی کیونکہ فی نفسہٖ اس چیز میں حیات کے کہیں عناصر نہیں ہیں ۔ یہ اپنے ہر مظہر میں اور اپنی ہر شکل میں بےجان ہے ۔ قرآن حکیم کہتا ہے ۔ کہ اگر اس مشکل کو حل کرنا چاہتے ہو ۔ تو اس پر نظریہ کو تسلیم کرلو ۔ کہ اس کارگاہ مادی کے پس پردہ ایک روح جلیل کار فرما ہے ۔ جس کے علم اور حکمت کی وجہ سے یہ نظام برقرار ہے ۔ چنانچہ آج مادئیں نے بالآخر اس نظریہ کو مان لیا ہے ۔ کہ مادہ میں جو شعور وادراک ترتیب اور تعین ہے یہ ایک غبر مفہوم قوت کی طرف سے ہے جو یحی اور یمیت کی مصداق ہے ۔ جس پر ہم ایمان رکھتے ہیں ۔ مگر یہ نہیں معلوم کہ وہ کیا ہے *۔ حل لغات :۔ یغرق ۔ یعنی یہ طے کیا جاتا ہے ۔ یہ واضح رہے کہ جہاں تک علم ازلی کا تعلق ہے اس میں تو کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوتی ۔ اور وہ تو ہمیشہ سے بالکل یکساں حالت میں ہے البتہ اس کے ماتحت فرشتوں کو بتایا جاتا ہے ۔ کہ یوں انتظام وانصرام ہوگا ۔ تو اس میں ایک نوع کا تقرر وتعین ہوتا ہے ۔ جو ان کی سہولت اور آسانی کے لئے کیا جاتا ہے *۔