وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُونِ ۚ هَٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ
اور وہ (عیسیٰ) تو قیامت کی ایک علامت [٦٠] ہے۔ لہٰذا اس (کے آنے) میں ہرگز شک نہ کرو اور میری پیروی کرو یہی سیدھی راہ ہے۔
حضرت مسیح کی دوبارہ آمد ف 1: اس آیت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے ۔ کہ حضرت مسیح قریب قیامت میں تشریف لائیں گے ۔ اور ان کی یہ تشریف آوری قیامت کی شروط میں سے ہے ۔ اس لئے تم لوگ اس میں مطلقاً شک نہ کرو ۔ یہی صراط مستقیم ہے ۔ اور یاد رکھو ۔ کہ شیطان عقل وخرد تم کو اس عقیدے سے باز رکھنے کی کوشش کریگا اور کہے گا ۔ کہ یہ کیونکر ممکن ہے ۔ کہ حضرت مسیح دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں ۔ اور قیامت کے علائم میں سے ہوں تمہیں یہ سمجھنا چاہیے ۔ کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے اور اس کی باتیں محض تمہیں گمراہ کرنے کے لئے ہیں اس لئے ان پر اعتماد نہ کرو *۔ یہ واضح رہے کہ جن لوگوں کی نظریں اس وقت یورپ والوں پر ہیں ۔ اور یہ محسوس کررہے ہیں ۔ کہ اس وقت امین عالم کے لئے انکا وجود زبردشت خطرہ ہے اور یہی لوگ ہیں جو مادیت سے مسلح ہوکر مذہب کے قلعوں پر حملہ آور ہیں ۔ اور آج ان کی وجہ سے روحانیت کے تمام نظرئیے پامال ہورہے ہیں ۔ ان کے نزدیک ضرورت ہے ، حضرت مسیح کی جو دنیا میں آکر اپنی است کے ان لوگوں کو بتلائیں ۔ کہ حرص وآز کی تکمیل اور جسم وقالب کی آرئش وتزئین ہی منتہائے کمال نہیں ۔ وہ آئین اور تمدن کے اس ہلاکت آفرین پہلو کو بکقلم بدل دیں ۔ اور یورپ کو روحانیت سے معمور کردیں ۔ آج یہ سفید فام قومیں گمراہی میں اتنی دور نکل گئی ہیں ۔ کہ ان کو پھر سے واپس لانا عام انسانوں کے بس میں نہیں ہے حالات کا تقاضا اور زمانے کے داعیات یہ ہیں ۔ کہ کوئی زبردست روحانی شخصیت مبعوث ہو اور وہ دنیا میں ایک زبردست انقلاب پیدا کردے ۔ جس کی وجہ سے انسانیت اپنی کھوئی ہوئی سعادتوں کو دوبارہ حاصل کرلے *۔