سورة الزخرف - آیت 41

فَإِمَّا نَذْهَبَنَّ بِكَ فَإِنَّا مِنْهُم مُّنتَقِمُونَ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

خواہ ہم آپ کو (دنیا سے) اٹھالیں ہم ان سے بہرحال انتقام لیں گے

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

یہ بہرے اور اندھے ہیں (ف 1) یعنی ہرچند ان لوگوں کو اسلام کے معارف وحقائق سے آگاہ کیا گیا ہے مگر یہ ہیں کہ ان میں پذیرائی اور قبولیت کی قطعاً استعداد موجود نہیں ہے ۔ یہ کانوں کے بہرے ہیں ۔ کلمہ حق کو سننا ہی نہیں چاہتے ۔ آنکھوں سے اندھے ہیں ۔ مظاہر صدق وصفا اور خوارق ومعجزات کو دیکھنے کے بھی روادار نہیں ہیں ۔ اس صورت میں اور گمراہی کی اس منزل میں آپ کا سمجھانا بالکل بےکار اور عبث ہے ۔ جب قومیں اس درجہ پست اور ذلیل ہوجائیں کہ سچائی کو قبول کرنا ان کے لئے موجب تنگ ہو ۔ تو پھر بہترین سزا قدرت کی طرف سے یہ ہوتی ہے کہ ان کو مٹا دیا جائے ۔ چنانچہ ان لوگوں کو اللہ کی شدید ترین سزا کے لئے ہر لحظہ تیار رہنا چاہیے ۔ اور جاننا چاہیے کہ اب وقت آگیا ہے کہ یہ ذلت ورسوائی سے دو چار ہوں ۔ یہ لوگ اس دنیا میں تمہارے سامنے بھی محسوس کریں گے کہ ہم سے اللہ تعالیٰ ناراض ہیں ۔ اور آپ کے بعد آخرت میں بھی محسوس کریں گے کہ ہم عذاب الیم میں گرفتار ہیں ۔ آپ بہرحال نہایت استقلال اور عزمیت کے ساتھ اللہ کے احکام کو پہنچاتے رہیے ۔ اور یہ یقین رکھیئے کہ اللہ کی جانب سے آپ صراط مستقیم پر گامزن ہیں ۔ ان لوگوں کی قسمت میں اگر یہ نہیں ہے کہ یہ اس نورہدایت سے اکتساب کریں ۔ تو قوم میں اور بہت سی سعید روحیں ہیں جو اس کو تسلیم کرلینے کے لئے بےقرار ہیں ۔ غرض یہ ہے کہ جب آدمی خدائے رحمن سے تعلقات عبودیت کو منقطع کرلیتا ہے تو پھر خود بخود شیطان کے چنگل میں پھنس جاتا ہے اور اپنی زندگی کو برباد کرلیتا ہے ۔ اس کے دل پر غفلت اور تساہل کے پردے پڑجاتے ہیں ۔ اور روحانی احساسات یک قلم مردہ ہوجاتے ہیں ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پھر نیکی کی باتوں سے اس کے دل میں نفرت پیدا ہوجاتی ہے ۔ اور برائی مرغوب ہوجاتی ہے۔