سورة الشورى - آیت 44

وَمَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِن وَلِيٍّ مِّن بَعْدِهِ ۗ وَتَرَى الظَّالِمِينَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ يَقُولُونَ هَلْ إِلَىٰ مَرَدٍّ مِّن سَبِيلٍ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

اور جسے اللہ گمراہ کردے [٦٢] تو اس کے بعد کوئی اس کا کارساز نہیں۔ اور آپ ظالموں کو دیکھیں گے کہ جب وہ عذاب دیکھیں گے تو کہیں گے کہ : کیا واپس [٦٣] پلٹنے کی بھی کوئی راہ ہے؟

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

(ف 1) یعنی وہ لوگ جن سے بداعمالیوں کی وجہ سے اللہ توفیق ہدایت چھین لے ۔وہ چارہ سازی سے محروم رہینگے ۔ گھاٹے میں کون ہے وہ لوگ جنہوں نے دنیا میں اپنی ذمہ داریوں کو محسوس نہیں کیا ۔ اور کفروشرک اختیار کرکے اپنے قلب ووجدان پر ظلم کیا ہے ۔ ان سے عالم عقبی میں بہت ہی ذلیل کن طرز عمل روارکھا جائیگا ان کی روح افتخار کو کچل ڈالا جائے گا ۔ اور اس تمام غروروکبر کو جس کی وجہ سے یہ قرآن حکیم تسلیم نہ کرسکے پاؤں تلے مسل دیا جائے گا ۔ محسوس کریں گے کہ ذلت و نکبت نے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے ۔ دوزخ روبرو لائے جائیں گے ۔ اور اللہ تعالیٰ سخت غصے اور غضب کا اظہار کرے گا ۔ اس وقت ان کی نظریں اوپر کو نہ اٹھیں گی ۔ مسلمانوں کو یہ دیکھیں گے مگر وہ زویدہ نگاہوں سے ۔ وہ بھی تاڑ جائیں گے اور ان سے کہیں گے کہو آج کون خسارے میں ہے ۔ دنیا میں تو تم لوگ کہتے تھے کہ مذہب کو قبول کرکے اپنی آزادی کو کھودینا ہے ۔ لذتوں اور مسرتوں سے محروم ہونا اور گھاٹے کو قبول کرنا ہے ۔ آج بتاؤ کون ہر طرح کی نعمتوں سے بہرہ مند ہے ۔ کون باغوں اور نہروں میں رہتا ہے ۔ کس کے عفیف اور جمیل حوریں تابع ہیں ۔ کون رب رحیم کے الطاف گو ناگون سے مشرف ہے ۔ کس کے لئے جامہائے شراب مہیا ہیں ۔ کس کے لئے روح میں بالیدگی اور ارتقاء ہے ۔ کس کے لئے روحانی تروتازگی اور نزہت ہے ۔ اور کون ہے جو ہر قسم کی مسرتوں سے محروم ہے ۔ دکھ اور تکلیف میں ہے ۔ دوزخ کے عذابوں میں مبتلا ہے ۔ اللہ کی رحمتوں سے دور ہے ۔ یاد رکھو ، ظالم اور برے لوگ اللہ کے مقام رضا کو کبھی حاصل نہیں کرسکتے ۔ اور ان میں یہ اہلیت ہرگز پیدا نہیں ہوسکتی کہ یہ جنات نعیم کی آسائشوں کو آزما سکیں ۔ اصل اور حقیقی زندگی یہ ہے کہ اللہ کے ہاں مقبولیت ہو وہ انعامات کے لئے پسند کرلے ۔ اور وہ روضات خلد میں جگہ دے ۔ یہ زندگی نہیں ہے کہ دنیا میں متاع عارضی کی وجہ سے اتنے سرمست اور مدہوش ہوجاؤکہ اللہ سے بالکل غافل ہوجاؤ اور اس کے حکموں کو کوئی وقعت نہ دو ۔ سب سے بڑی کوفت ان کے لئے یہ ہوگی کہ جن لوگوں کو دنیا میں اپنا چارہ ساز سمجھتے تھے جن سے عقیدت تھی ۔ اور جن کو یہ اپنا نجات دہندہ قرار دیتے تھے یہ ان سے بالکل بیزاری کا اظہار کریں گے ۔ اور قطعاً ان کو سزا اور عذاب سے نہیں بچا سکیں گے ۔