ذَٰلِكَ الَّذِي يُبَشِّرُ اللَّهُ عِبَادَهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ۗ قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ ۗ وَمَن يَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَّزِدْ لَهُ فِيهَا حُسْنًا ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ شَكُورٌ
یہی وہ فضل ہے جس کی اللہ اپنے ان بندوں کو بشارت دیتا ہے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے۔ آپ ان سے کہئے کہ میں اس کام پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا البتہ قرابت کی محبت [٣٤] ضرور چاہتا ہوں۔ اور جو کوئی نیکی کمائے گا ہم اس کے لئے اس میں خوبی [٣٥] کا اضافہ کردیں گے بلاشبہ اللہ معاف کرنے والا اور قدر دان ہے۔
حضور (ﷺ) کے اقرباء کی محبت (ف 2) اہل بیت سے محبت اور عقیدت رکھنا بلاریب جزو ایمان ہے ۔ اور کون بد بخت ہے جو اس سعادت سے محروم رہنا پسند کریگا ۔ حضور (ﷺ) کے اقارب سے تعلقات ارادت اس بات کی علامت ہے کہ دلوں میں تقویٰ اور پاکیزگی موجود ہے ۔ اور حب پیغمبر کا جذبہ موجزن ہے ۔ اور درحقیقت یہ عشق نبوی کا لازمی نتیجہ ہے ۔ جب حضور (ﷺ) سے محبت ہوگی ۔ تو پھر آپ کے اقرباء سے محبت نہ رکھنا کوئی معنی ہی نہیں رکھتا ۔ یہ ایسا پاک جذبہ ہے کہ امام شافعی (رح) باوجود تسنن کے اس بات پر فخر وناز کرتے ہیں کہ ان کان رفض حبا ال محمد فلیشھد الثقلان انی رافضی کہ اگر آل محمد (ﷺ) سے محبت رکھنا رفض ہے تو کونین اس پر گواہ ہیں کہ میں رافضی ہوں مگر اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اس آیت میں اسی محبت کی طرف اشارہ ہو ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے ایسا مطالبہ نہیں کرتے ۔ جس کا تعلق اساس دین سے ہو ۔ اقارب کی عزت واحترام تقاضائے ایمان ضرور ہے ۔ مگر نفس دین سے اس کا تعلق نہیں ہے دین نام ہے صرف اللہ کی اطاعت اور حضور (ﷺ) کی پیروی کا ۔ یہ دو مأخذ ہیں اسلام کے سارے نظام حیات کے اور ان کے علاوہ تمام پاک شخصیتیں اپنی جگہ پر قابل کریم ہیں مگر دین نہیں ہیں ۔ اسلام صرف حقائق کا نام ہے ۔ صداقتوں سے تعبیر ہے ۔ شخصیتوں کو اس میں دخل نہیں ہے ۔ پھر اگر آیت کے یہی معنی ہوں ۔ جو عام طور پر پیش کئے جاتے ہیں تو اس میں شبہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ معاذ اللہ حضور (ﷺ) نے یہ سارا کھڑاک ہی اس لئے کھڑا کیا تھا کہ بعد میں ان کے اقربا اور اعزۃ ان کی فتوحات اداوت سے فائدہ اٹھائیں ۔ حالانکہ واقعہ ایسا نہیں ہے حضور (ﷺ) دوسرے انبیاء کی طرح اپنی تبلیغی مساعی پر بغیر اس کے کچھ اجر نہیں چاہتے کہ لوگ ان کی پاک کوششوں کو بار آور بنائیں ۔ اور اسلام کو قبول کریں ۔ بس ﴿إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى ﴾کے معنی ہی ہیں کہ میں جو کچھ جانتا ہوں یہ ہے کہ تم لوگ مجھے اپنے عزیز اور قریبی سمجھو اور مجھ سے وہی سلوک روا رکھو جو اقربا سے روا رکھا جاتا ہے ۔ مجھے اپنا دشمن قرار نہ دو ۔ اپنا ہمدرد سمجھو اور میری باتوں پر اعتماد کرو ۔ حل لغات : رَوْضَاتِ۔ روضہ کی جمع ہے ۔ بمعنی باغ جنت کے معنی مقامات عیش ومسرت ہونگے ۔ إِلَّا الْمَوَدَّةَ۔اصل میں مستثنی منہ حب میں داخل نہیں ہے کیونکہ حضور سے اپنے اقارب کی محبت رکھنا کوئی تبلیغ کا صلہ نہیں ہے ۔ جس کا حضور مطالبہ کرتے ہیں بلکہ ایک امرزائد ہے ۔