وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَىٰ مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ
ایسے لوگوں سے جب کوئی برا کام ہوجاتا ہے یا وہ اپنے آپ پر ظلم کر بیٹھتے [١٢١] ہیں تو فوراً انہیں اللہ یاد آجاتا ہے اور وہ اپنے گناہوں کی معافی مانگنے لگتے ہیں اور اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کرسکے؟ اور وہ دیدہ دانستہ [١٢٢] اپنے کئے پر اصرار نہیں کرتے
(ف1) ان آیات میں مسلمان کے نصب العین کو واضح کیا ہے کہ وہ مجسمہ اطاعت ہوتا ہے ، اس کا ہر ارادہ اللہ اور اللہ کے رسول (ﷺ) کے ماتحت ہوتا ہے ، اور وہ دنیا کی دلفریبیوں پر نہیں ریجھتا ، وہ جنت ومغفرت سے کم کسی چیز پر راضی نہیں ہوتا ، مغفرت کے معنی مختلف آئے ہیں ، امام المفسرین حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں اس سے مراد اسلام ہے ، حضرت علی (رض) کا ارشاد ہے کہ اس سے مقصود ادائے فرائض ہے ، حضرت عثمان (رض) فرماتے ہیں ، پانچ نمازیں ہیں ، سعید بن جبیر (رض) کہتے ہیں ، تکبیر اعلی سے تعبیر ہے ۔ مگر لفظ کی وسعتیں کسی تخصیص کی متحمل نہیں ، ان اقوال میں بھی تضاد نہیں ، ان بزرگوں نے اپنے اپنے مذاق کے مطابق جس طرز عمل کو زیادہ اچھا سمجھا ، مغفرت کا اولین مصداق قرار دیا ، مقصود بہرحال یہ ہے کہ مسلمان کی نگاہیں بہت بلند ہیں ، وہ مقام رضا ومغفرت کو لپک لپک کر اور دوڑ دوڑ کر حاصل کرنا چاہتا ہے ، ﴿عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ﴾ سے مراد وسعت وکشادگی کی تشریح ہے ، ” بلاد عریضہ “ بڑے بڑے ملکوں کو کہتے ہیں ۔ مقصود یہ ہے کہ زمین وآسمان کی بلندیاں اور پنہا ئیاں جنت کی وسعت بےپایاں کا ایک حصہ ہیں ، بعض لوگوں نے ” عرض “ کے بھی کئے ہیں ، مگر عربیت کے لحاظ سے کچھ زیادہ جچتے نہیں ۔