سورة فصلت - آیت 22

وَمَا كُنتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَن يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَا أَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُودُكُمْ وَلَٰكِن ظَنَنتُمْ أَنَّ اللَّهَ لَا يَعْلَمُ كَثِيرًا مِّمَّا تَعْمَلُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور (گناہ کرتے وقت) تم اس بات سے نہیں چھپتے تھے کہ کہیں تمہارے کان، تمہاری آنکھیں اور تمہاری جلدیں ہی تمہارے خلاف گواہی [٢٦] نہ دے دیں۔ بلکہ تم تو یہ خیال کرتے تھے کہ جو کچھ تم کرتے ہو ان میں سے اکثر باتوں کو اللہ جانتا [٢٧] ہی نہیں

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اعضاء بولیں گے ف 1: یہ لوگ اس لحاظ سے اللہ کے دشمن ہیں ۔ کہ اس کے پیش کردہ نصب العین سے عداوت رکھتے ہیں ۔ اس لئے نہیں ۔ کہ ان کی دشمنی اس کی جلالت قدر کو کوئی نقصان پہنچا سکتی ہے ۔ یا ان کو اللہ کے مدمقابل ہونے کی حیثیت حاصل ہے ۔ یہ دشمن دین جب کشاں کشاں اس کے حضور میں لائے جائیں گے ۔ تو خلاف توقع ان کے کان ان کی آنکھیں اور ان کی کھالیں ان کے خلاف گواہی دیں گی ۔ اور بولیں گی ۔ یہ لوگ حیرت وندامت سے کہیں گے کہ تم میں گویائی کی صلاحیت کیونکر پیدا ہوگئی ؟ یہ جواب میں کہیں گیکہ جس اللہ نے ہر بولنے والی چیز کو نطق کی نعمت سے نوازا ہے ۔ اسی نے ہمیں بھی یہ صلاحیت بخش دی ہے ۔ اسی نے تمہیں پیدا کیا تھا ۔ اور آج اسی کے حضور میں لائے گئے ہو ۔ یہ جواب جو اعضاء وجوارح کی طرف سے دیا گیا ہے ۔ کس درجہ معقول ہے ۔ کتنا درست ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سارے اعتراضات کو ایک جملہ میں رفع کردیا ہے ۔ کیونکہ جب ہم یہ تسلیم کرتے ہیں ۔ کہ منہ میں گوشت کا ایک ٹکڑا بول سکتا ہے ۔ تو پھر کان کیوں گویا نہیں ہوسکتے ۔ اور آنکھیں گفتگو نہیں کرسکتیں ۔ جہاں تک اللہ کی حکمتوں اور قدرتوں کا تعلق ہے ۔ ان کو مان لینے کے بعد اس نوع کے مشکوک کا قطعی ازالہ ہوجاتا ہے ۔ وہ چاہے تو آہن اور فولاد کے جگر میں احساس کی استعداد رکھ دے ۔ پتھروں کو شنوا کردے ۔ اور پہاڑوں کو رواں دواں بنائے وہ سب کچھ کرسکتا ہے ۔ اور ان کی قدرتوں کا دائرہ اتنا وسیع اور لامحدود ہے ۔ کہ ہم اس کے احاطہ سے عاجز ہیں ۔ ہمارا یہ منصب نہیں ۔ کہ ہم کہیں یہ مشکل ہے ۔ اور یہ محال ہے بلکہ ہمارا فرض یہ ہے ۔ کہ اس کے سامنے سر نیاز جھکادیں ۔ اور کہہ دیں کہ اے اللہ تو ان بےشمار چیزوں پرقدرت رکھتا ہے ۔ جن کے متعلق ہمیں کچھ بھی معلوم نہیں *۔