سورة غافر - آیت 50

قَالُوا أَوَلَمْ تَكُ تَأْتِيكُمْ رُسُلُكُم بِالْبَيِّنَاتِ ۖ قَالُوا بَلَىٰ ۚ قَالُوا فَادْعُوا ۗ وَمَا دُعَاءُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

وہ کہیں گے ’’کیا تمہارے پاس رسول واضح دلائل لے کر نہیں [٦٤] آئے تھے؟‘‘ دوزخی کہیں گے : ’’کیوں نہیں‘‘ (ضرور آئے تھے) تو وہ کہیں گے : ’’ پھر تم خود [٦٥] ہی دعا کرلو‘‘ اور کافروں کی دعا تو گُم ہی ہوجانے والی [٦٦] ہے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ف 1: غرض یہ ہے کہ وہ مقام ہوگا جہاں ارادت اور عقیدت کے تمام تعلقات منقطع ہوجائیں گے اور ہر شخص اپنی ذاتی ذمہ داری کو محسوس کرے گا ۔ اس وقت معلوم ہوگا ۔ کہ حاملین ملت ومقتدائے دین کس درجہ مکار تھے اور کیونکر کمزور استعداد کے لوگوں کو گمراہ کرتے تھے ۔ پھر جب یہ لوگ دیکھیں گے ۔ کہ یہ کبراء تو کچھ نہیں کرسکتے ۔ تو فرشتوں سے کہیں گے ۔ تم ہی ہمارے لئے تخفیف عذاب کی دعا کرو ۔ وہ کہیں گے اب تو دعا کا کوئی موقع ہی نہیں رہا ۔ کیا تمہارے پاس انبیاء ورسل نہیں آئے تھے اور کیا انہوں نے دلائل وشواہد سے تمہیں نہیں نوازا تھا ۔ تم نے اس وقت کیوں انکار کیا ۔ کیوں حق و صداقت کی تعلیم کو ٹھکرایا ۔ وہ جواباً کہیں گے ۔ یہ تو درست ہے ۔ کہ اللہ کے رسول آئے ۔ اور انہوں نے اپنا پیغام ہم تک پہنچایا ۔ یہ ہماری محرومی تھی کہ ہم ایمان کی دولت سے بہرہ مند نہ ہوسکے ۔ فرشتے کہیں گے کہ پھر تم خود ہی دعا کرو ۔ اور یہ معلوم ہے ۔ کہ کفار ومنکرین کی دعائیں محض بےاثر ہیں *۔ حل لغات :۔ فی ضلل ۔ یعنی معرض اندام میں یہ اس قبیل سے ہے کیدھم فی تضلیل *۔