سورة البقرة - آیت 34

وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ : آدم کو [٤٦] سجدہ کرو۔ تو سوائے ابلیس کے سب فرشتوں نے اسے سجدہ کیا [٤٧] ابلیس نے اس حکم الٰہی کو تسلیم نہ کیا اور گھمنڈ میں آ گیا اور کافروں میں شامل ہوگیا

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) مسجودانسان : پھر اس لئے کہ فرشتوں کو انسان کو حقیقی قدر ومنزلت کا علم ہو ‘ اللہ نے تمام کو آدم (علیہ السلام) کے سامنے سجدہ کرنے کا کہا ، سب کو آدم (علیہ السلام) کے سامنے جھکایا ، اسلامی فلسفہ تخلیق ہی یہی ہے کہ تمام کائنات انسان کے لئے پیدا کی گئی ہے ۔ (آیت) ” وخلق لکم ما فی الارض جمیعا “۔ ذرہ سے آفتاب تک اور زمین سے آسمان تک سب کچھ حضرت انسان کے لئے ، حتی کہ شمس و قمر بھی اسی کے خادم ہیں ۔ (آیت) ” وسخرلکم الشمس والقمر دآئبین “۔ یوں سمجھ لیجئے کہ آدم قبلہ مقصود ہے ہر چیز کا ، ساری کائنات کا محور انسان ہے ، شیطان جو ایک مشخص برائی ہے ، اس حقیقت کو نہ سمجھا اور اکڑ بیٹھا ، قرآن حکیم نے بتایا ہے کہ وہ اپنی فطرت سے مجبور تھا ۔ (آیت) ” وکان من الکافرین “۔ اس لئے ضروری تھا کہ وہ انسانی شرف ومجد کا انکار کر دے ۔