وَإِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَحْدَهُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ ۖ وَإِذَا ذُكِرَ الَّذِينَ مِن دُونِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ
اور جب اللہ اکیلے کا ذکر کیا جائے تو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل گھٹ جاتے [٦١] ہیں اور جب اللہ کے علاوہ دوسروں کا ذکر کیا جائے تو ان کی باچھیں کھل جاتی ہیں
اللہ کے نام سے چِڑ ف 2: اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے ۔ کہ مشرکین کو توحید سے کس درجہ نفرت ہے اور بتوں سے کس حد تک محبت ہے ۔ ان کے سامنے جب ایک اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ اور وحدیت کے معارف عالیہ سے ان کو بہرہ مند کیا جاتا ہے ۔ اور بتلایا جاتا ہے ۔ کہ اسی کا آستانہ جلال وعظمت اس قابل ہے ۔ کہ انسان اس کے سامنے جھکے ۔ تو ان کے دلوں میں انقباض پیدا ہوجاتا ہے ۔ اور بشرے سے سخت بیزاری ٹپکنے لگتی ہے ۔ تو چاہیے یہ تھا کہ اللہ کا نام ان کے لئے وجہ تسکین ہوتا ۔ جب ان کا نام لیا جاتا ۔ تو ان کے قلوب میں روشنی اور شگفتگی پیدا ہوجاتی ۔ مگر یہاں فطرت مسخ ہوچکی ہے ۔ یہ لوگ اللہ کے نام سے منقبض ہوتے ہیں ۔ اور جب ان کے دیوتاؤں کا تذکرہ ہو ۔ ان کے ارباب کے قصے ہوں ۔ اور یہ بتایاجائے کہ ان کے اصنام کتنے صاحب کرامات وخوارق ہیں ۔ تو پھر دیکھئے ان کے چہروں پر مسرت کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے ۔ آج بھی جو لوگ مشرکانہ عقائد وتوہمات میں گرفتار ہیں مسئلہ توحید میں ان کے لئے کوئی دلچسپی اور جاذبیت نہیں ہے ۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس نوع کے مسائل کا اظہار بےکار وبے سود ہے ۔ انہیں اگر شغف ہے تو روایات اور قصص سے اور اولیاء کرام کے افسانہ ہائے عجائب وغرائب سے ۔ چنانچہ جس مجلس میں توحید کا چرچا ہوتا ہے ۔ وہاں آپ دیکھیں گے کہ نہ کوئی رونق ہوتی ہے اور نہ کیفیت اور نہ خشوع وتادب کا نشان ۔ البتہ جہاں مشائخ طریقت کی محفلیں گرم ہوتی ہیں ۔ وہاں عودوعنبر ہے ۔ لوگوں کا ہجوم ہے ۔ وجد وتراقص ہے ۔ دھوم دھامی ہے ۔ لوگ خاص عقیدت سے دو زانو بیٹھے سن رہے ہیں ۔ یہ کس چیز کا مظاہرہ ہے ! ان چیزوں سے کیا ثابت ہوتا ہے ۔ مرد مومن جو بھی اللہ کے نام پر تڑپ جاتا تھا ۔ اور جس کو اس کے ذکر میں حلاوت محسوس ہوتی تھی ۔ جس کا دل اس کے جذبات محبت سے معمور تھا ۔ جو پٹینا تھا آگ میں جھونکا جاتا تھا ۔ دار پر کھینچ دیا جاتا تھا ۔ مگر عشق الٰہی سے دست بردار نہیں ہوتا تھا ۔ آج اس کا پتا نہیں اور اس کی جگہ ایک ایسے شخص نے لے لی ہے ۔ جس کا نام مسلمانوں کا سا ہے ۔ جو کلمہ توحید کا اقرار بھی کرتا ہے مگر دل میں اللہ کے ساتھ کوئی خاص لگاؤ اور نسبت نہیں رکھتا ۔ وہ دن رات مزاروں اور قبروں کا طواف کرتا ہے ۔ خانقاہوں کے گرد گھومتا ہے ۔ اور غیر اللہ کی محبت میں مارا مارا پھرتا ہے ۔ توحید میں اس کے لئے تسکین وطمانیت کا سامان نہیں ۔ وہ بدعات اور مشرکانہ رسوم کا شیدا ہے ۔ اللہ کا نام اس کے لئے بالکل روکھا پھیکا ہے ۔ جب تک کہ اس کے ساتھ چند اور ہستیوں کا ذکر نہ کیا جائے ۔ اور یہ نہ بتایا جائے کہ ان لوگوں کو کس درجہ اختیارات اللہ نے تفویض کررکھے ہیں ۔ وہ خاص توحید کو کھری اور توحید کہتا ہے ۔ صرف ایک اللہ کے نام میں اسے کوئی بلندی اور رفعت نظر نہیں آتی ۔ وہ تو اس بات پر جان دیتا ہے ۔ کہ اس کے مشائخ کن خوارق اور کرامات کے مالک ہیں ۔ آہ ! وہ خدائے عزوجل جس کی محبت اور اطاعت شعاری سے ان بزرگان پاک نفس نے اتنے بلند مراتب حاصل کئے تھے ۔ اور جس کے سامنے جھکنے سے انہیں مقام ولایت حاصل ہوا تھا ۔ آج اس خدا کا درجہ بالکل ثانوی ہے ۔ اور جملہ فضائل وہ ان کی جانب منسوب کردیئے گئے ہیں جو اس سے مختص ہیں ۔ اور جن کے انتساب کی ان بزرگوں نے قطعی اجازت نہیں دی *۔ حل لغات :۔ اشمازت ۔ انتہائی انقباض اور نفرت *